ڈاکٹرناصر عباس نیر ّ
(۱) ۔ زبان اور سٹیریو ٹائپ
زبان ،سٹیریوٹائپ اور ادب؛ ان تینوں کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ ہم زبان کے بغیر ادب کاتصوربھی نہیں کرسکتے،البتہ زبان کا تصور ادب کے بغیر کیا جاسکتاہے۔ سڑیو ٹائپ ،جس کی وضاحت میں آگے چل کروں گا، زبان میں تشکیل پاتے ہیں اور زبان کے ذریعے ایک شخص یا گروہ سے دوسرے اشخاص اور گروہوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ادب اسی زبان کو بروے کار لاتا ہے۔ آخر میں ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ادب سٹیریوٹائپ کو باقی رکھتا ہے ، چیلنج کرتا ہے یا انھیں توڑتا ہے۔
اردو اور انگریزی کی روزمرہ گفتگو میں کثرت سے استعمال ہونے والے الفاظ میںسٹریو ٹائپ بھی شامل ہے۔اس لفظ کی کہانی دل چسپ ہے۔ یہ فرانسیسی لفظ اوّ ل اوّل فن طباعت میں استعمال ہوا۔اسے فرانسیسی پرنٹر فرماں ڈیڈو(Firmin Dedot) نے اسے۱۷۹۶ء میں استعما ل کیا۔ اس سے مراد وہ ’ٹائپ ‘ یا بلاک تھاجس سے سیکڑوں ایک جیسے پرنٹ لیے جاسکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اردو میں کثرت سے استعمال ہونے والا ایک اور فرانسیسی لفظ کلیشے بھی ابتدا میں فن طباعت کی اصطلاح تھی ،اور اس کا مفہوم بھی کم وبیش وہی تھا جو سٹیریو ٹائپ کا ہے۔چوں کہ استعارہ سازی زبان کی بنیادی صفت ہے،اس لیے ہر زبان میں ایک شعبے کے الفاظ کو ذہنی ،سماجی اور تخیلی تصورات کے لیے استعارہ بنانے کا مستقل میلان ملتا ہے۔ سٹیریوٹائپ اور کلیشے کو بھی استعارہ بنانے کا عمل بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں امریکی مصنف والٹر لپ مین نے اسے اپنی کتابPublic Opinion میں سیاسی اور سماجی حقیقت سازی کے مفہوم میں استعمال کیا۔ والٹر لپ مین کا کہنا ہے کہ ہم ایک محدود دائرے میں رہ کر اردگرد کا علم حاصل کرتے ہیں؛ہمارا علم براہ راست کم اور بالواسطہ زیادہ ہوتا ہے۔ جن واسطوں (خواہ وہ کتنے ہی بڑے صاحبان علم ہوں)سے علم حاصل کرتے ہیں،انھوں نے بھی محدود دائرے میں علم حاصل کیا ہوتا ہے۔لہٰذاہمارا عمومی رویہ یہ نہیں ہوتا کہ پہلے چیزوں کو دیکھیں پھر ان کی تعریف کریں ،بلکہ ہم الٹ چلتے ہیں ۔ پہلے کسی چیز کی تعریف ذہن میں بٹھا لیتے ہیں،پھر اسے دیکھتے ہیں،یعنی اس تعریف کی رو سے اسے سمجھتے اور اس سے معاملہ کرتے ہیں۔لپ مین کے بعد جرمن ۔امریکی ماہر نفسیات ایرخ فرام نے اس موضوع پر خاصا لکھا۔اس کی کتاب’’ صحت مند معاشرہ‘‘ (مترجمہ قاضی جاوید) میں چیزوں کو اس طرح سمجھنے کے عمل کو تجرید سازی کا نام ملا ہے، جس سے برگشتگی پیدا ہوتی ہے۔آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ تمام سٹیریو ٹائپ اصل میں تجرید ہوتے ہیں اور لوگوں کو خود سے اور دوسرے لوگوں سے برگشتہ کرتے ہیں۔ لپ مین کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ : ’’خارجی دنیا کے شورو شغب میں ہم ان چیزوں کو چن لیتے ہیں ،جنھیں ہمارے کلچر نے پہلے سے واضح کررکھا ہوتا ہے،اور کلچر نے انھیں سٹیریو ٹائپ کی شکل دے رکھی ہوتی ہے‘‘۔یہاں کلچر ذرا مبہم معنی میں آیا ہے۔ بلاشبہ ہر کلچر میں کچھ بنیادی علامتیں ہوتی ہیں، جن کی مدد سے کلچر کے بہترین تصورات ،اقدار اور تصور کائنات کی نمائندگی ہوتی ہے،اور اس کلچر میں پیدا ہونے والے افراد ان علامتوں کی مدد سے ایک طرف اپنی شناخت قائم کرتے ہیں اور دوسری طرف دنیا ، سما ج اورکائنات میں ایک منفرد ہستی کے طور پر جینے کے بہترین ڈھنگ سے متعارف ہوتے ہیں۔ کلچری علامتیں صدیوں کے مشترکہ انسانی تجربات کا جوہر ہوتی ہیں ،جب کہ سٹیریو ٹائپ اپنی اصل میں سماجی ہوتے ہیں اور انھیں ’طاقت کے کلچر‘نے وضع کیا ہوتا ہے۔لپ مین کی یہ بات اہم ہے کہ ہم یعنی عوام وخواص دونوں جن باتوں کو ’علم ‘ کے طور پر منتخب کرتے ہیں ،وہ اصل میں سٹیریو ٹائپ ہوتے ہیں ۔بہ ہر کیف اس نے سٹیریو ٹائپ کے لغوی مفہوم ہی کو’ ثقافتی تصورات‘ کے سلسلے میں استعاراتی طور پر استعمال کیا۔ یعنی جس طرح ایک بلاک ،بے شمار صفحوں پر ایک ہی طرح کے حروف ، لفظ یا تصویر چھا پ دیتا ہے ،اسی طرح ’طاقت کی ثقافت ‘میں ایک تصور ’ٹائپ یا بلاک ‘ کی مانند ہوتا ہے جو لاکھوں کروڑوں لوگوں کے ذہنی صفحات پر نقش ہوجاتا ہے ،اور وہ لوگ دنیا، لوگوں ،اشیا کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح سٹیریوٹائپ انھیں دکھانا چاہتا ہے۔
لسانیات میں سٹیریو ٹائپ کو ہیلری وائٹ ہیڈ پٹنم نے اپنی کتابوںIs Semantics Possible اور The Meaning of meaningمیںبالترتیب ۱۹۷۰ ء اور ۱۹۷۵ء میں استعمال کیا۔ پٹنم نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح زبان میں ’’متعین تصورات‘‘ وجود میں آتے ہیں ،اور چیزوں کافہم قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ انھیں وہ سٹیریو ٹائپ کہتا ہے۔ وہ اسے مثبت ومنفی معنوں میں نہیں ،توضیحی انداز میں استعمال کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ لیموں کا ’’سٹیریو ٹائپ عبارت ہے: پیلا، تیکھا،ترش پھل۔اس کا ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ کسی شے کا معنی محض سٹیریو ٹائپ سے نہیں ،بلکہ اس کی توسیع سے طے ہوتا ہے۔ یعنی جب تک لیموں کے ساتھ ،پیلا، تیکھا ،ترش پھل کے توسیعی معانی وابستہ نہیں ہوں گے، لیموں کا سٹیریو ٹائپ سمجھ میں نہیں آئے گا۔پٹنم نے سٹیریو ٹائپ کو معنی کے ساتھ جوڑ کر خاصا الجھا دیا ہے۔اس کا مئوقف یہ محسوس ہوتا ہے ،جیسے سٹیریو ٹائپ زبان کی بنیادی ضرورت ہے ،اور اس کے بغیر الفاظ ہم تک اپنے متعین معانی نہیں پہنچا سکتے۔ پٹنم سے کہیں پہلے ساختیاتی لسانیات واضح کرچکی تھی کہ زبان میں ’متعین معانی ‘ نہیں ،بلکہ ’سیال معانی‘(fluid meanings) ہوتے ہیں۔ جنھیں متعین تصورات کہا جاتا ہے وہ ان سیال معانی پر اختیار، اجارے اور قابو پانے کی کوشش ہوتے ہیں،اور یہ کوشش محدود طور پر کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔سٹیریو ٹائپ ہوں یا کلیشے قائم ہی اس وقت ہوتے ہیں ،جب زبان میں سیال معانی کو قابو میں لاکر انھیں متحجر کردیا گیا ہو۔خیر پٹنم کے بعد چل سو چل۔ پھر نفسیات ، بشریات، سیاسیات، ادبی تنقید ، صنفی ومابعد نوآبادیاتی مطالعات اور صحافت اور عام روزمرہ گفتگو میں یہ اصطلاح کثرت سے استعما ل ہونے لگی۔
جیسا کہ ابھی عرض کیا، پٹنم نے سٹیریو ٹائپ کو توضیح کی، یہ نہیں بتایا کہ یہ دنیا کے بارے میں ہمارے تصورات کو اچھے یا برے طریقے سے متاثر کرتا ہے۔یہ بجا کہ تمام سٹیریو ٹائپ زبان ہی میں قائم ہوتے ہیں، خواہ ان کا تعلق مخصوص طبقات سے ہو،مخصوص سماجی گروہوں سے ہو، کسی خاص قوم سے ہو، خاص رویوں سے ہو، مخصوص تصورات سے ہو، یا اشیا سے ہو، یا دوسری مخلوقات سے ہو،یاکسی خاص زمانے سے ہو ۔۔۔۔سب کے سب سٹیریوٹائپ زبان کے ذریعے قائم ہوتے ہیں، زبان ہی کے ذریعے ان کی ترسیل ہوتی ہے، زبان ہی کے ذریعے یہ دوام پاتے ہیں ۔مثلاً عورت فلسفی نہیں ہوسکتی؛مسلمان شدت پسند ہیں؛ مغرب کے لوگ تعقل پسند ہوتے ہیں؛ افریقی اچھے ایتھلیٹ ہوتے ہیں؛ قرون وسطیٰ مثالی عہد تھا؛ قدیم انسان وحشی تھے؛الو بے وقوف پرندہ ہے؛ نیلی آنکھوں والے بے وفا ہوتے ہیں؛ چھوٹے قدکی عورتیں شہوت پرست ہوتی ہیں۔یہ سب سٹیریو ٹائپ ہیں ،جو زبان میں قائم ہوئے ہیں اور جن کا دوام تکرار کے ساتھ کہاوتوں، لوک ادب اور عام ثقافتی تصورات میں بیان کیے جانے کا مرہون ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زبان ،اپنی بنیادی ابلاغی خصوصیت کی بنا پر سٹیریو ٹائپ قائم کرتی ہے یا کوئی دوسری وجہ ہے؟ اس کا کچھ جواب تو اوپر کے پیراگراف میں دیا جاچکا ہے۔ دو ایک مزید باتیں۔ اصل یہ ہے کہ زبان خود غیر جانب دار ہے،لیکن اس میں جانب دار بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ مثلاً زبان کے نقطہ ء نظر سے سچ یا جھوٹ، غلط یا صحیح، مضر یا مفید سب یکساں درجے کے حامل زمرے ہیں۔ کوئی شخص زبان کو جھوٹ گھڑنے یا سچائی پیش کرنے دونوں کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔نیز زبان میں جھوٹ گھڑنے کی ایک ایسی صلاحیت بھی ہے ،جس پر سچ کا گمان ہوسکتا ہے۔ آج کل پوسٹ ٹروتھ یا مابعد سچائی کا کافی غلغلہ ہے۔ یعنی آج کل مین سٹریم اور سوشل میڈیا کا مسئلہ امر واقعہ نہیں ، کسی واقعے سے متعلق آرا، تاثر ، کلامیہ یا بیانیہ ہے۔یہ سب زبان کی مذکورہ صلاحیت کے بل بوتے پر ہے۔ زبان خود غیر جانب دار رہتی ہے۔لیکن وہ طبقات ،گروہ اور آرگنائزیشنیں زبان کو جانب دار بنا سکتے ہیں ،جنھیں سماجی لسانی منطقے میں طاقت ، پوزیشن ، اجارہ حاصل ہے۔ یہی طبقے سٹیریوٹائپ وضع کرتے ہیں اور اسے دوام بخشتے ہیں۔ وہ زبان کے اس پہلو کو بہ طور خاص بروے کار لاتے ہیں،جسے مشرقی علم بلاغت میں انشائیہ اور مغربی لسانیات میںPerformative کا نام دیا گیا ہے۔
علم بلاغت ،جملے کی دو قسموں میں فرق کرتا ہے: خبریہ اور انشائیہ۔ خبریہ جملہ اطلاع وخبر دیتا ہے،جو سچی بھی ہوسکتی ہے اور جھوٹی بھی۔ دونوں کی تصدیق معروضی طور پر کی جاسکتی ہے۔دوسری طرف انشائیہ جملہ ’ایک ایسے بیان پر مشتمل ہوتا ہے ،جس پر خارج یا نفس الامر میں موجودجھوٹ ،سچ کا اطلا ق نہیں ہوتاــ‘۔بہ قول نجم الغنی ’’جملہ انشائیہ کا بولنے والا اپنی طبیعت سے ایک مضمون ایجاد کرتا ہے‘‘۔( بحرالفصاحت، حصہ چہارم ، مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۲۰۱۴ء ص ۱۷)۔ ’اپنی طبیعت سے جو مضمون ایجاد کیا جاتاہے، وہ سننے والے کو قائل کرسکتا ہے، متاثر کرسکتا ہے، محظوظ کرسکتا ہے، کسی نئی بات کا خیال دلاسکتاہے،اور کچھ کرنے کی تحریک یا ترغیب دلاسکتا ہے۔گویا انشائیہ جملے کے امکانات کی حدخاصی وسیع ہے۔ خبریہ جملہ محدود ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کے ذریعے حقیقت کو پیش کرنے اور ایسی چیزیں ایجاد کرنے ،جن پر حقیقت یا وراے حقیقت کا گمان ہو۔۔۔۔مشرقی علم بلاغت کا غیر معمولی انکشاف تھا۔اسے ہم نے آگے نہیں بڑھایا، مگر کم وبیش یہی خیال بیسویں صدی کی مغربی لسانیات کے ایک اہم نظریے کی بنیاد بنا۔ برطانوی ماہر لسانیات جے ایل آسٹن کی کتابHow to do thing with words (جو ۱۹۵۲ میں ولیمز جیمز لیکچر پر مشتمل ہے ،جو مصنف کی وفات کے بعد ۱۹۶۲ ء میں شایع ہوئی )میںPerformative کا نام دیا ہے۔ آسٹن نے د طرح کے بیانات میں فرق کیا ۔ ایک وہ جو خبریہ یعنی constativeہیں،جو غلط یا درست ہوسکتے ہیں،اور وہ بنیادی طور پر توضیحی ہوتے ہیں؛جب کہ دوسری قسم کے بیانات کو آسٹن نے’انجام دہ ‘یعنی Performative کا نام دیا۔یہ سب بیانات کسی نہ کسی عمل سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً:میںفلاں شخص سے دوستی کرتا ہوں؛ میں اپنے گھر کو فلاں نام دیتا ہوں یا میں شرط لگاتاہوں کہ کل دھوپ نکلے گی۔ ان سب میں بہ قول آسٹن کوئی نہ کوئی عمل ہے۔ آسٹن عمل کی تین قسمیں بتاتاہے: جسمانی، ذہنی اور لسانی۔ (جے ایل آسٹن،How to do thing with words،ہاورڈ یونیورسٹی پریس ،۱۹۶۲، ص ۸) ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نجم الغنی نے بھی انشائیہ جملے کے سلسلے میں جو مثالیں پیش کی ہیں، وہ کوئی کام کرنے سے متعلق ہیں۔ ’’کسی کو کہنا کہ یہ کام کر یا مت کر‘‘۔ فرق یہ ہے کہ آسٹن ’انجام دہ ‘ بیان کے لیے واحد متکلم پر زور دیتا ہے ،اور نجم الغنی واحد غائب پر۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زبان میں سٹریوٹائپ سازی کو سمجھنے کے لیے عمل کی دونوں صورتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
اسے لسانیات کا اہم ترین انکشاف سمجھا جانا چاہیے کہ ’کہنا کرنا ‘ ہے ۔ یعنی انشائی لسانی بیان یا Performative خالی خولی لسانی اظہار نہیں ہیں،جو دنیا، خواہ باہر کی ہو یا اندر کی،اس سے کٹے ہوانہیں ہے۔جو کچھ کہا جاتا ہے ، اس میں عمل شامل ہوتا ہے۔جیسا کہ آسٹن نے وضاحت کی ہے ،اس میں عمل پر اکسانے ، عمل کی ترغیب ، عمل کی آرزو یا عمل کی طرف اشارہ موجود ہوتا ہے،یعنی عمل کی کوئی نہ صورت لازماً مضمر ہوتی ہے۔ کہنے میں کرناکس طور شامل ہے، اس کا عمدہ بیان اجمل سراج کے اس شعر میں موجود ہے:
کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہوگئے
دستار یاد آگئی سر یاد آگیا
شاعر یا متکلم کچھ کہنے سے اس لیے رک گیا کہ وہ ڈرگیا۔ ڈر اس لیے گیا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا اس کے نتیجے میں اس کی دستا ر کی بے توقیری کی جاسکتی تھی یا اس کا سر اڑایا جاسکتا تھا۔ یعنی اس کے ’’کہنے ‘‘ کے ساتھ اس کے ساتھ لازماً کچھ خوفناک ’’کیے جانے والے عمل‘‘ کا حقیقی ڈر وابستہ ہے۔اگر کہنا ،محض خالی خولی ،بے اثر کہنا ہوتا تو نہ تو اس سے ڈر وابستہ نہ ہوتا۔ آمرانہ حکومتوں میں لوگوں کی زبان بندی بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں،اس سے عمل کی کوئی نہ کوئی صورت نتھی ہوتی ہے۔ تمام سٹیریو ٹائپ بھی جو’ کہتے‘ ہیں ،ان میں ’کرنے ‘ کی خصوصیت مضمر ہوتی ہے،یعنی وہ حقیقی دنیا میں لوگوں کے طر زعمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس مقام پر ہم سٹیریوٹائپ کی بیشتر خصوصیات کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ پہلی یہ کہ سٹیریو ٹائپ محض کسی شے ، شخص یا گروہ کے بارے میں ایسے سچ یاجھوٹ کوبیان نہیں کرتے جن کی معروضی تصدیق ہوسکے۔یعنی وہ خبریہ یا constativeنہیں ہوتے۔ ان کا تعلق حقیقی دنیا میں موجود لوگوں ، طبقوں ،اشیا سے ہوتا ہے، مگر وہ ان سے متعلق جس بیان پر مشتمل ہوتے ہیں ، وہ ’ایجاد‘ ہوتا ہے۔ تمام سٹریو ٹائپ میں جسمانی ،ذہنی یا لسانی عمل مضمر ہوتا ہے۔ یعنی کوئی بھی سٹیریو ٹائپ نہ تو غیر جانب دار ہوتا ہے ،نہ منفعل،نہ غیر مئوثر ۔ وہ کسی شخص یا گروہ کے بارے میں ایک ایسا تصور دیتا ہے جو ہمارے ذہن میں اس شخص یا گروہ کے سلسلے میں کسی نہ کسی عمل کی تحریک دیتا ہے۔مثلاً جب عورتوں کے بارے میں یہ سٹریو ٹائپ بن گیا کہ وہ ناقص ا لعقل ، جذباتی ہوتی ہیں ،یا سردار اور پٹھان بے وقو ف ہوتے ہیں، یا مسلمان شدت پسند ہوتے ہیں ،یا مذہب ،عقل کا دشمن ہوتاہے، یا ڈاڑھی والے خطرناک ہوتے ہیں،یا کلین شیوسیکولر ہوتے ہیں،فیشن کرنے والی عورتیں جنسی آزادی کی حامل ہوتی ہیں،یا پردہ کرنے والی عورتیں لازماً نیک کردار ہوتی ہیں ،یا ہررکن پارلیمان جمہوریت پسند ہوتا ہے،یا جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والے جنگ کے مخالف ہوتے ہیں،یا سائنس کاہرا ستاد روشن خیال ہوتا ہے ،یا ادب پڑھنے والا ہر شخص لبرل خیالات رکھتا ہے،لبرل خیال کا آدمی مغرب کا ایجنٹ اور مذہب کا دشمن ہے ۔۔۔جب ہم ان سٹیریو ٹائپ بیانات کوپڑھتے یا سنتے ہیں تو ہم صرف متعلقہ طبقات یا اشخاص کے بارے میں غیر جانب دار قسم کا علم حاصل نہیں کرتے،ان کے ساتھ حقیقی برتائو بھی انھی سٹیریو ٹائپ کی روشنی میں کرتے ہیں۔ گویا سٹیریو ٹائپ محض ایک سادہ،معصوم لسانی بیان نہیں ہوتا، وہ حقیقی زندگی میں ہمارے عمل کی راہ اور جہت بھی متعین کرتا ہے۔ لوگوں کے لیے ہماری محبت، نفرت ،یہاں تک کہ حقیقی تشدد پر بھی مائل کرتا ہے۔معاصر دنیا میں اس کی مغرب میں مثال اسلامو فوبیا ہے ،جس کے تحت مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت انگیز ،پرتشدد رویہ اختیار کیا جاتا ہے،اور ہمارے یہا ں اس کی مثال جمہوریت، آزادی ،جدید و مابعد جدید علوم،لبرل خیالات کی بات کرنے والوں کو مغربی تہذیب اور سامراج کے نمائندے اور مذہب کے دشمن سمجھ کر حقارت کا نشانہ بنایا جاتاہے۔
بعض لوگ پروٹو ٹائپ اور سٹیریوٹائپ میں فرق نہیں کرتے۔ دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ سٹیریوٹائپ اپنی اصل میں سماجی اور ثقافتی ہیں ،جب کہ پروٹوٹائپ ’بنیادی ، قدیمی ‘ ہونے کی بنا پر اساطیری مفہوم رکھتا ہے۔ یہی صورت آرکی ٹائپ کے ساتھ ہے۔پروٹو ٹائپ اور آرکی ٹائپ ،طاقت کے کلچر سے باہر کی چیز ہیں،ان کا تعلق انسانی سائیکی ،اس کے پیچیدہ تجربات ،قدیم ثقافتی تصوری سانچوں کو سمجھنے سے ہے۔