ٹیبل پہ سجے کھلونے
فرصت میں جمی آنکھیں
ان میں
ماضی کے وہ سب منظر
خود کو دھرا رہے ہیں
کافی دنوں سے جسم
اک کمرے میں بند ہو کر
سب پرانے دوستوں کے نقش
تلاش کر رہا ہے
شاید ان دنوں میں میرے دوست بھی
زندگی کی دوڑ سے تھک ہار کے
سستا رہے ہوں گے
کچھ پرانی تصویروں میں
میری طرح بچپن ڈھونڈتے ہوں گے
سب پرانے چٹکلوں کو یاد کر کے
چھتوں پہ تنہا
ٹہل ٹہل کر تھک جاتے ہوں گے
تو کمرے میں بیٹھے
پھر وہی بچپن کی یادیں
یاد کر خودکلامی کرتے ہوں
اور کسی کے سوال کرنے پہ
کہ کیا ہوا ہے بتلاؤ تو؟
تو کہتے ہوں بس ویسے ہی
مسکرایا ہوں
وہ سامنے
ٹیبل پہ سجے کھلونے دیکھ کر