کالم

دانشؔ عزیز کی’’ تشکیک ‘‘ : یونس خیال

ڈاکٹردانش عزیز کے شعری مجموعے ’’ تشکیک‘‘ پر بات کرنے سے پہلے اس کی غزل کا ایک خوب صورت شعر دیکھیے:
‎دنیا جہاں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد میں
‎ پہلے تو صرف سنگ تھا اب سنگِ میل ہوں
دیکھنایہ ہے کہ سنگ سے سنگِ میل ہونےتک کے عمل میں ہمارے تخلیق کارپرکیابیتی اوراس نے اس شناخت کوممکن بنانے کے لیےدنیاجہان کی ٹھوکروں کا انتخاب اپنے مزاج اوررویوں کے مطابق خود کیاہےیاعمومی طریق سےمعاشرے نے مجموعی طورپر ردکرکے اسےاِس اذیت کا شکارکیا۔ اب کیااس نے اپنی منزل پالی ہے کہ نہ صرف اسے اپنی شناخت کا ادراک ہوگیاہے بلکہ اس نے اس کا اعلان کردینا بھی مناسب سمجھاہے۔راہ کے پتھرسے سنگِ میل ہونےکے اس تجربے کواس نےصرف اپنی کامیابی کامعیارہی نہیں بنایابلکہ وہ اس پیمانے سے اپنےہمعصروں کی مسافت کااندازہ بھی لگاتاہے:
مجھ کو پڑھ کر تیری منزل کا پتہ چلتا ہے
تیرے رستے میں لگا میل کا پتھر میں ہوں !
’’تشکیک‘‘ کے تخلیق کار کے سفر کی ابتداء اورانتہا کا اندازہ مجموعے کی پہلی اورپھرآخری غزل سے منتخب دو اشعارسے باآسانی لگایاجاسکتاہے ۔سفرکاباقی حال ۲۲۴صفحات پرموجود ہے۔سفرکونکلنے کی اندازپہلی غزل کے اس میںشعر دیکھیے:
میرے عزیزو میں جا رہا ہوں، میری وصیت کو یاد رکھنا
جو مجھ ساکوئی بھی ایک دیکھو، اسے جوانی میں مار دینا
اوراب دیکھیے کہ واپسی کے منظرکااحساس مجموعے کی آخری غزل کے آخری شعر میںکس طورنمایاں ہے:
آب و ہوا سے لگتا ہے دانشؔ کا شہر ہے
ٹھہرو !میں پھر سے دیکھ لوں نقشہ نکال کر
یہاں سوال یہ ہے کہ وصیت کرتے ہوئے شہرچھوڑنے کا فیصلہ شاعرکااپنا تھایاوہ کسی معاشرتی جبر کا شکارہوا۔مجموعے میں کئی اشعارموجودہیں جن سے پتہ چلتاہےکہ دانش عزیز کواس وقت سب سے زیادہ اپنی ’’اَنا‘‘ عزیزتھی اورشایداب بھی ہے۔اپنی اس اَناکے تحفظ کے لیے بستی چھوڑناتو اس کے لیےایک معمولی بات تھی ،وہ جان تک لٹانے کے لیے بھی بخوشی تیار تھا۔وہ ا َناجس کو بچپن ہی سے اس نے سب ے زیادہ عزیزرکھا:
جب مری عمرکے بچوں نے تھا چلنا سیکھا
میں نے اس وقت بھی مِٹی سے بنائی گردن
شاعرکوسفرکی صعوبتوں کااندازہ تھااوراس کے ساتھی مختلف اندازسے اسے روکنے کی کوشش میں تھے لیکن اس کا فیصلہ اَٹل تھا:
اِک ایک کر کے سبھی نے ترکِ سفر کیا ہے
اور ایک میں ہوں کہ اپنی ضد پر اڑا ہوا ہوں
۔۔۔۔
منزل کو چھوڑ وہ مجھے ملتی ہے یا نہیں
گر تجھ میں حوصلہ ہے تو رستے کی بات کر
۔۔۔۔
شجر ہے کون یہاں کون جلتا سورج ہے
ابھی کھلے گا ذرا دھوپ تو نکلنے دو
۔۔۔۔
میرے مزاج میں شامل یہ رَہ نوردی ہے
میرے سفر میں کہیں بھی قیام تھوڑی ہے
کچھ اسی طرزکا احساس دانش عزیزکے ۱۹۹۵ءمیں چھپنے والے پہلے شعری مجموعے’’ کوئی نام مجھے دے دو‘‘ اور اس کے بعد’’ اِک تارہ ،اِک چاند اورمیں‘ ‘ اور’’ ابھی کچھ درد باقی ہے‘‘ میں بھی موجود ہے۔ دومثالیں دیکھیے:
قائم ہے اس کے دم سے ہی، دم خم , اَنا،غرور
سر نام کی جو چیز ہے شانوں کے درمیاں
۔۔۔۔
لو مبارک ہو تمہیں یہ بزم اب
بَس کرو ! اَب مت پکارو ! الوداع
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ کیا خود بستی چھوڑ کرنکلنے والےاس خوددارتخلیق کارکی واپسی ممکن ہوپائی اور اگروہ بستی کو لوٹ آیاہے تواس کے دامن میں محرومی یاکسی قسم کاپچھتاوہ تونہیں۔۔۔ تو میں اس کا جواب دوں گاکہ جن کے ہاں اپنی مرضی سے بستی چھوڑنے کا حوصلہ ہوتاہے، بستیاں ان کاانتظار کیاکرتی ہیں۔ وہ کبھی بھی راہ کا پتھر نہیں رہتے، وہ سنگِ میل ہوتے ہیں ۔ وہ جہاں چاہیں اور جب چاہیں اپنی مرضی کی بستی آباد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بقول جمیل یوسف :
دلِ ناشاد کو آکر وہ اک دن شاد کردے گا
جدھر دیکھے گا تازہ بستیاں آباد کردے گا
اس نےدنیاوی طور پرکئی سنگِ میل عبورکرنے کے بعدعشق بستی کی طرف واپسی کا ارداہ تو کیا لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا:
نہیں جو پہنچا تو اس میں کوئی تو مصلحت ہے
میں ایک مدت سے گھر کی جانب چلا ہوا ہوں
۔۔۔۔۔
میرے یار دانشؔ مری بات سمجھو
جہاں جا رہے ہو وہاں کچھ نہیں ہے
اس کی بڑی وجہ یہ تھی اب جسم کی بجائے اس کی روح زیادہ توانا ہوچکی تھی اور اس کی مسافت کارخ عمود کی جانب ہوگیاتھا۔میرے خیال میں یہ دانش عزیزکی شاعری کا ٹرننگ پوائنٹ ہےجہاں جسمانی سطح سے اوپر اُٹھ کرروح سے اس کی شناسائی ہوئی اورپھرپہلا مکالمہ ہوا:
روح بولی مجھے سمجھتے ہو؟
ہجر بولا کہ جی سمجھتا ہوں
اسی روح کے زیرِاثراُس نے واپسی کاارادہ ترک کیا،آنکھیں بند کیں اوراپناہاتھ اس کےہاتھ میںدےدیاجو’’کچھ نہیں‘‘ والی جگہ سے ’’کچھ‘‘ تلاشنےکاہنرجانتاتھا۔جو’’نامعلوم‘‘ سے ’’ معلوم ‘‘کی طرف جانے والے رستوں کے پیچ وخم سے واقف تھا ۔
مجھے ایک درویش نے کل بتایا
وہیں سب ملے گا جہاں کچھ نہیں ہے
یہاں میں یہ بات ضرورکہناچاہوںگاکہ ہمارے اس تخلیق کار کوسادہ ہرگزنہ سمجھاجائے۔یہ ایک بڑاسوداگرہے۔اپنی ’’ انا‘‘ کوڈھال بناکرعشق بستی چھوڑی، مسافت اپنائی،ٹھوکریں کھاکرسنگِ میل بنا،اپنی ذہنی اورقلبی وسعت کے لیےریاضت کی اورجب اسے اپنے دامن کی کشادگی کاادراک ہوگیاتوپھراپنی اسی اَناکوگروی رکھ اپنےکر دامن کو موتیوں سے بھرلیا۔
اِک درویش سے لے آیا ہوں دےکر شور کا کاٹھ کباڑ
ہجر کی لکڑی چپ کی ہانڈی اور چولہا خاموشی کا
شاعری میں جذباتی لذت کی کشید اوربیان یقینا پُرکشش ہوتےہیں اوران کی تاثیریت سے انکاربھی کسی طور ممکن نہیں لیکن جب تک اس میں شاعرکے ذاتی روحانی تجربے کی آمیزش نہ ہوتواس کےہاں تشنگی کااحساس رہتاہےاوراس کےبڑی شاعری کی طرف بڑھنے کےمرحلےطے نہیں ہوتے۔’’ تشکیک ‘‘ کی شاعری میںدانش عزیز کاشعری سفربڑی شاعری کی طرف گامزن ہے۔تنقید کا کام فتوے بانٹنا تونہیں ہوتالیکن مجھے کہنے دیجیے کہ موضوع کے اعتباسے بہت جلداس کےہاں ایک بڑی تبدیلی دیکھ رہاہوں۔اس موضوع کے اشارے اس کےاس شعر میں دکھائی دیتے ہیں:
کبھی بچھونا ،کبھی لبادہ ،کبھی مزاروں پہ چڑھتی چادر
اُدھیر کر اِس بدن کی بنتی نہ ہم سے پوچھو بُناہے کیا کیا
ابھی میں نے ذکرکیاتھاکہ دانش ؔ کواتنا سادہ مت سمجھاجائے۔دنیاوی حوالے سے اس لیے بھی کہ یہ میرؔ کوامام سمجھتے ہیں اوراگرکبھی انھیں سادہ سمجھنے کی ضرورت محسوس ہو بھی تو میرؔ کے اس شعرکو ضرورذہن میں رکھاجائے جس میں ’’  عطارکےلونڈے ‘‘کا ذکرکرتے ہوئے اس نے خود کو سادہ کہاتھا۔
میرؔ کے ساتھ ہمارے شاعرکی نسبت اور محبت کااظہار کاسلیقہ شاندار بھی ہے اورپُرخلوص بھی۔اس حوالے سے ایک الگ گفتگوبنتی ہےلیکن یہاں میرے لیے اس شعر کونظراندازکرنا ممکن نہیں ہے:
مجھ کو خوشبو ملے پانی میں بھگو کر رکھ لو
حضرت ِمیر کے دربار کی چادر میں ہوں
۔۔۔۔۔
سادہ لفظی کا مَیں پوچھوں گا طریقہ اُن سے!
کاش ہو جائے ملاقات مِری میرؔ کے ساتھ
دانش ؔ کی شاعری میں ایک خاص طرح کی تازگی اورروانی کااحساس موجود ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔ آخر میں ایسے چند اشعار دیکھیے:
پچھلی سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے آنکھوں سے
اس نے سب تفصیل بتا دی شیشے میں
۔۔۔۔۔
بھاڑ میں جائے تیرے کمرے کا اے سی
میں نے سگرٹ اندر بیٹھ کے پینی ہے
۔۔۔
قسم تمہاری بتا دو تو راز رکھ لیں گے
تمہارے کوٹ پہ کس کا یہ بال ہے دانش
۔۔۔
مجھ کو واپس جانے کی بھی جلدی ہے
لیکن تجھ سے بات بھی لازم کرنی ہے
۔۔۔
بہت بارش ہے آندھی ہے، میں گھر تک چھوڑ دیتا ہوں
قباحت گر نہ ہو کوئی مجھے چائے پلا دینا
۔۔۔۔۔۔

جو خود کچھ نہیں ہے وہ یہ کہہ رہا ہے
فلاں کچھ نہیں ہے فلاں کچھ نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی