نظم

بہانے : نوشی ملک


نوشی ملک
وہ نظموں سا
وہ غزلوں سا
سریلی راگنی سا ہے
وہ شبنم سا
ملائم سا
سہانی چاندنی سا ہے
وہ امبرعود کے لہجہ میں
خوشبو کے اثر سا ہے
سنہری دھوپ سرما کی
تمازت میں شجر سا ہے
وہ مستی کا کنایہ ہے
شرابوں کے اثر سا ہے
سجیلا بانکپن اس کا
خوشی کا استعارہ ہے
بہاروں کی قبا ہے وہ
حسیں ہے دلربا ہے وہ
وہ ساون بارشوں سا ہے
وہ سندر موسموں سا ہے
فضا میں عکس ہے اس کا
وہ گہرے پانیوں سا ہے
ہنسی میرے لبوں کی ہے
میرے خوابوں کا آنچل ہے
وہ کاجل میرے نینوں کا
مری رگ رگ میں شامل ہے
ہواوں سا
گھٹاوں سا
دھنک کے رنگ ہیں سب اس میں
رفیع کے گیت جیسا ہے
کوئی مورت پیکاسو کی
رباعی میر کی ہےوہ
وہ غالب کی غزل سا ہے
مرے غم کا مداوا ہے
مری سوچوں کا محور ہے
وہ میری دھڑکنوں میں ہے
مری سانسوں میں رقصاں ہے
میں اس کو سوچتی ہوں
بے خودی میں رقص کرتی ہوں
تصور میں اسے چھوتی ہوں
اسی کو عکس کرتی ہوں
نوشی ملک

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی