شاعرہ: دیاجیم
عمر گزری ہے سہارے نہیں بدلے میں نے
جو پیارے ہیں وہ پیارے نہیں بدلے میں نے
وہی آکاش وہی رات کی چادر سر پر
چاند کو دیکھ کے تارے نہیں بدلے میں نے
نیلے پیلے سے یہ لمحات ہیں جاگیر مری
ہجر میں اپنے اشارے نہیں بدلے میں نے
مدتوں بعد تری یاد کے میلے کپڑے
کچھ بدل بھی دئیے, سارے نہیں بدلے میں نے
میں ندی تھی , تو مرے ساتھ کنارا تو تھا
ساتھ بہتی رہی , دھارے نہیں بدلے میں نے
خواب کو صبح کی دہلیز پہ لے آئی ہوں
آنکھ کھولی ہے نظارے نہیں بدلے میں نے
تیرے خوابوں سے ہی روشن رہا یہ دل کا دیا
ہجر میں خواب تمہارے نہیں بدلے میں نے
دیا جیم۔