شاعرہ : شیریں سیّد
اور کتنا لہو بہاؤ گے
جو بھی کر لومگر یہی سچ ہے
خون تو رائگاں نہیں جاتا
ایک مسلی ہوئی کلی کا بھی
تم نے تو گلستاں اجاڑا ہے
اک حسیں آشیاں اجاڑا ہے
کس قدر ظلم اور ڈھاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے…. ؟
بین کرتی ہوئی یہ آوازیں
راستوں میں بِچھی ہوئی لاشیں
سسکیاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی
رات دن بیٹیوں کی فریادیں
تم پہ جب قہر بن کے ٹوٹیں گی
پھر کہاں خود کو تم چھپاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے
تم بھی خود کو "سپاہی” کہتے ہو
تم پہ لعنت ہزار ہو رب کی
تم کو لگ جائے بدعا سب کی
بز دلو اب کے ہار جاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے