Poetry نظم

اور کتنا لہو بہاؤ گے؟


شاعرہ : شیریں سیّد
اور کتنا لہو بہاؤ گے
جو بھی کر لومگر یہی سچ ہے
خون تو رائگاں نہیں جاتا
ایک مسلی ہوئی کلی کا بھی
تم نے تو گلستاں اجاڑا ہے
اک حسیں آشیاں اجاڑا ہے
کس قدر ظلم اور ڈھاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے…. ؟
بین کرتی ہوئی یہ آوازیں
راستوں میں بِچھی ہوئی لاشیں
سسکیاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی
رات دن بیٹیوں کی فریادیں
تم پہ جب قہر بن کے ٹوٹیں گی
پھر کہاں خود کو تم چھپاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے
تم بھی خود کو "سپاہی” کہتے ہو
تم پہ لعنت ہزار ہو رب کی
تم کو لگ جائے بدعا سب کی
بز دلو اب کے ہار جاؤ گے
اور کتنا لہو بہاؤ گے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی