نظم

ایک نظم

      

از : یوسف خالد

اک دائرہ ہے
دائرے میں آگ ہے
اور آگ کے روشن تپش آمیز منظر سے کوئی کردار ابھرا ہے
عجب ماحول ہے
اک بے نیازی ہے،جنوں پرور ادا ہے
رقص جاری ہے
تھرکتے پاؤں انگاروں پہ پڑتے ہیں
تو انگاروں کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں
انوکھی بے خودی ہے
کیف و مستی ہے
مسلسل رقص جاری ہے
مگرکچھ فاصلے پر
منتظر بیٹھی ہوئی یخ بستگی
یہ سوچتی ہے
کب ادھورے خواب
ان آنکھوں کی پلکوں سے گریں گے
خاک کی پوروں میں اتریں گے
الاؤ کب بجھے گا
کب تماشہ ختم ہوگا
کب نئی رت پھر نئے خوابوں کو
آنکھوں میں سجائے گی
نئے رنگوں سے خوشبو سے
نیا کردار ابھرے گا
نئی صورت گری ہو گی
کہانی مر نہیں سکتی
کہانی پھر جنم لے گی
یوسف خالد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی
نظم

ایک نثری نظم

  • جولائی 14, 2019
از : یونس خیال اس بار ساون میں مرے کچے مکان کی دیواریں زمین بوس ہوگئیں ان کی مٹی گھل