نظم

یہ گھومتا ہوا گلوب ایک "گیند” ہی تو ہے : عادل وِرد

زمین اسی رفتار سے اب بھی گھومتی ہے جیسے پہلے گھومتی تھی
سورج وہیں سے طلوع ہوا تھا جسے پہلے بھی مشرق کہا جاتا رہا ہے
ہاں, بارشیں انہونے وقت پہ برس رہی ہیں !!
اور ہم ____ ہم سب دوپائے ویسے نہیں رہے جیسے کل تھے,یا اس سے پہلے
ہم خواب دیکھ چکنے کے بعد اسے سچا کرنے میں جٹ جاتے ہیں
کیسے بھی وسائل ہوں,
حالات سازگار بنائے جا سکتے ہیں
پیچیدہ راستوں پر چھلانگ لگا کر منزل دبوچ لیتے ہیں
ہم سوچ کے قلعوں کے شہنشاہ بن جاتے ہیں
اور پھر سوچتے ہیں,
کون ہے؟ جو تخیل کے منہ زور دریا پہ بند باندھنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے
ہم مرئی اور غیر مرئی طاقتوں کو زیر کرنے کے سب حربے جان چکے ہیں
ہم اب تک کی سائنسی دریافتوں پر اترانا اپنا حق سمجھتے ہیں
ہم اپنے پچھلوں سے کئی بہتر ہیں
اور خود کو اگلوں سے بہتر بنانے میں صرف ہوئے جاتے ہیں
ہم خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے
لیکن نائب کا رتبہ بھی اب ہمیں ہیچ لگتا ہے
بارشوں میں بے قاعدگی ماحولیاتی آلودگی کا ہی نتیجہ ہے
اور کوئی وجہ تو ہو ہی نہیں سکتی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی