—————————-
گھروں میں ہی دبکے رہو رات دن، میرے بھائیو
کہ باہر ہوا کا سراپا
کسی خوف کی بھاری زنجیر سے
خود کو باندھے ہوئے
لڑکھڑانے لگا ہے
دبک جاؤ اپنے مکانوں کی اندھی اندھیری گپھا میں
کہ شام اب پچھل پیریوں کی طرح
خون کی پیاس سے چھٹپٹانے لگی ہے
سیہ رات کا کالا عفریت ماتم گزیدہ ہے۔ ۔۔۔۔
پیڑوں سے اترے گا اور شہر کے باسیوں کو
جو چل پھر رہے ہیں ۔۔ پر وں میں دبوچے گا
۔۔۔۔ کھا جائے گا !
چلو اب گھروں کی طرف رخ کرو
بند کمروں میں سیلن ہے، بو ہے، گھٹن ہے
مگر عافیت ہے !!