نظم

نہ ابتدا ہے نہ کوئی انجام آج کل : سعید عباس سعید

نہ ابتدا ہے نہ کوئی انجام آج کل
دن سارے ہوگئے ہیں بے نام آج کل

انسان ڈر رہا ہے انساں کے ساتھ سے
پھیلا ہوا ہے خوف سا ہرگام آج کل

فردا کا خوف ہے کبھی ماضی کے تذکرے
بے حال ہے ہماری ہر شام آج کل

بڑی تلخ ہو گئی ہے دنیائے حقائق
خواہوں میں ہے ہمارا بسرام آج کل

گلیاں ویراں پڑی ہیں کوئی منچلا نہیں
جلوہ بھی نہیں کوئی سربام آج کل

اے سعید میروغالب ہوتے جو ان دنوں
سنتے وہ صرف خبریں دل تھام آج کل

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی