نظم

چھوٹی سی رات : سلمان باقر

 

میں سوچتا ہوں
یہ رات اتنی چھوٹی کیوں بنی
محبت کے لئے
اتنی چھوٹی کہ
ابھی پہلا بوسہ تمام نہیں ہوا تھا کہ گجر بجا
سونے والو ، اٹھو ، صبح ہونے لگی
چڑیاں ڈالیوں پہ مستی میں چہچہانے لگیں
دودھ پیتے بچوں نے کسمسا کے ماؤں کو جگایا ، کہا ، ہمیں دودھ پلاؤ ۔۔۔ صبح ہونے لگی ، ہمیں بھوک لگی ،
رات میں جاگنے والے پنچھی بھی
اپنے آستانوں کو چلے
یا اللہ
محبت کرنے والوں کے لئے رات ذرا لمبی کیوں نہ بنی ،
مجھ کو ہی تو دیکھ لے ، ذرا نظر بھر کے
میں رات کو روز پیاسا ہی سوتا ہوں
جب صبح ہوتی ہے تو پیاسا سو کے پیاسا ہی اٹھ بیٹھتا ہوں ،
وہ ، مجھے سے لپٹ کے کہتی ہے
میری جاں ، کہاں تم چلے
میری دھرتی پیاسی ہے ابھی ، تم اٹھ کے کہاں چلے
کاش یہ رات ذرا اور بھی لمبی ہوتی
تیری بانہوں میں جو ذرا سمٹ کے لمبی تان کے سوتی
پیار کرنے کے لئے یہ رات اتنی چھوٹی کیوں بنی ۔۔۔ !!!

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی