ثانیہ شیخ
وہی دن ہیں
سرِ شام دھند اترنے لگتی ہے
یادوں کا بھی
موسم سے عجب سا ناتا ہے
ہمارے خواب چہرے کی
سلوٹوں میں ڈھل چکے ہیں
آنکھوں میں نمی کو ستارا
کر لیا ہے
آئینے گرد اوڑھ بیٹھے ہیں
سمے کی ریل
آتشدان میں اڑتی چنگاریوں
کے ساتھ چلتی رہتی ہے
اور گود میں پڑی کتاب کا
صفحہ مڑا ہی رہتا ہے
چاۓ کی بھاپ ختم ہو چکی ہے
مگر یہ خواب
مگر یہ خواب!
ثانیہ شیخ