نظم

مگر یہ خواب : ثانیہ شیخ

ثانیہ شیخ
ثانیہ شیخ
وہی دن ہیں
سرِ شام دھند اترنے لگتی ہے
یادوں کا بھی
موسم سے عجب سا ناتا ہے
ہمارے خواب چہرے کی
سلوٹوں میں ڈھل چکے ہیں
آنکھوں میں نمی کو ستارا
کر لیا ہے
آئینے گرد اوڑھ بیٹھے ہیں
سمے کی ریل
آتشدان میں اڑتی چنگاریوں
کے ساتھ چلتی رہتی ہے
اور گود میں پڑی کتاب کا
صفحہ مڑا ہی رہتا ہے
چاۓ کی بھاپ ختم ہو چکی ہے
مگر یہ خواب
مگر یہ خواب!
ثانیہ شیخ

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی