نظم

معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر : سعید اشعرؔ

میرے ہاتھ سلامت ہیں
آنکھیں روشن ہیں
میں پورے قد سے اپنے پیروں پہ کھڑا ہوں
صبح سویرے
چڑیوں کی چہکار
کھڑکی کے رستے
پھولوں کی آنے والی مہکار
بادل کی اونچائی سے
گرنے والی
پانی کی پھوار
سب میرے لیے ہیں
میں چاہوں تو
اڑن کھٹولہ حاضر ہو جاتا ہے
دودھ اور شہد کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں
من اور سلوٰی نازل ہونے لگتا ہے
میری چاہت میں حوریں
تن من واری جاتی ہیں

میں ہابیل کی لاش اٹھائے
جانے کب تک
مارا مارا پھرتا
اللہ نے اک کوٌا بھیجا
میری مشکل آسان ہوئی
لیکن دھرتی کا چہرہ بدصورت اور خاک آلود ہوا
رنگ اور ذائقے تبدیل ہوئے
ہنس مکھ چہروں کی فرحت ماند پڑی
خوف نے جالا تان لیا

میں اگلے جنم میں
ہاتھوں، آنکھوں اور پیروں جیسی نعمت سے
محروم ہی رہنا چاہتا ہوں
ورنہ
میں ہابیل کا پھر سے قاتل بن جاؤں گا

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی