نظم

میرے ساتھ بیٹھے تم :فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب

ٹھنڈ سرد خانوں سے
منظروں پہ دُھند چھڑک رہی ہے
بینائی اپنے سوا
اپنی سمت سے ڈر رہی ہے
برف آلود سڑکوں پہ
گاڑیاں سرک سرک کر
جاں بچانے میں جُتی ہیں
شیشوں پہ جمی سرد تہوں پہ
میں تمہیں اور تم مجھے
لکھ رہے ہو
وہ جذبے جنھیں زباں سے
ادا نہیں کیا جا سکتا
سانسوں میں اترتی تمہاری خوشبو
اور ہونٹوں پہ جمی کافی کا رنگ
دونوں مل کر
گالوں پہ سرخیوں کو تھپتھپا رہے ہیں
رات انگڑاتے ہوئے
گھڑی کی سوئیوں سے لپٹ رہی ہے
میں تمہاری آنکھوں میں
اتر کر خواب دیکھ رہا ہوں
اور تم بھی میری آنکھوں میں
بہت دیر سے
مسکرا رہے ہو تکلفاً
موسم کی سردمہری پہ
میرے ساتھ بیٹھے تم

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی