نظم

مجھے حیرت ہے : یوسف خالد

مجھے حیرت ہے

کیسے لوگ برسوں کا تعلق توڑ کر
انجان بن جاتے ہیں سب کچھ بھول جاتے ہیں
مجھے تو ایک پل کی بھی رفاقت
بھولنا دشوار لگتی ہے
کہ میرے صحنِ جاں میں ہر تعلق
آئینہ تمثال ہے
میں جانتا ہوں آئینے نازک بدن ہوتے ہیں
اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
اسی باعث میں بھولے سے بھی ایسا کچھ نہیں کرتا
کہ ان کو ٹھیس لگ جائے
یا ان پرگرد جم جائے
مرا احساس میری سوچ کا وہ ریشمی ملبوس ہے
جو ہر گھڑی مجھ کو
کسی کے قرب کی میٹھی حرارت دان کرتا ہے
میں آنکھیں بند کرتا ہوں
تو گزرے وقت کے سارے حسیں لمحے
کسی گلدان میں رکھے ہوئے پھولوں کی صورت
حجلہءجاں کو معطر کرنے لگتے ہیں
میں یادوں کی حسیں راہداریوں میں
چہل قدمی کرتا رہتا ہوں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی