مرے ساغر کے لب پرتیرتے یہ برف کے ٹکڑے
مۓ تازہ کے ہم آمیز، پانی کے جزیرے
کون صدیوں، کون دنیائوں کے قصّے ہیں!
زباں کڑواہٹوں سے بھر چکی ہے
خالی بوتل کی طرح دنیا
سکوں سے اور مسرّت سے، ترے غم سے تہی دنیا
سرِ فرشِ زمیں پہلو کے بل پر میرے قدموں میں
پڑی ہے
شام۔۔۔سایوں سے جُدا ہو کر
مجھے اپنی طرف پیہم بلائے جا رہی ہے
آج جانے کیوں تمھاری یاد آئے جا رہی ہے!
میں ابھی آزاد ہو کر آ رہا ہوں
اس نظامِ بے جہت سے، شور پرور ساعتوں سے
اس خرابے سے ابھی لوٹا ہوں
ان لوگوں سے مل کر آ رہا ہوں
جو ابھی تک مردہ تابوتوں میں زندہ دفن ہیں
جو ریزہ ریزہ خود سے جھڑتے جا رہے ہیں
اک توانا خستگی اوڑھے،
مجھے ان ساعتوں سے خوف آتا ہے
کہ میں جب اپنی ہی تدفین میں مصروف ہوں گا
اپنا کتبہ لکھ رہا ہوں گا
یہ دنیا مجھ پہ کھل کر ہنس رہی ہوگی،
مجھے اُن ساعتوں سے خوف آتا ہے
کہ جب تو اچانک مجھ کو مل جائے گی
(دوبارہ بچھڑنے کے لیے)
اور میں تمھیں پھر کھو نہ پائوں گا
یہ دنیا!
خالی بوتل پر کھڑی دنیا
مجھے اچھی نہیں لگتی
زباں کڑواہٹوں سے بھر چکی ہے
پانیوں کے گیت اچھے لگ رہے ہیں
یہ لب و رُخسار تیرے،یہ ترے سنگیت
اچھے لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔