نظم

یہ کیسی صبح : نواز انبالوی

 

یہ کیسی صبح
نظارے کی روح میں
آبسی ہے
کہ صباحتیں بے ساختہ پھیلنے کو ہیں
دل کی گہرائیوں میں
ان پیچیدہ کھائیوں میں
کسی احساس کا ابھی جنم ہوا ہے
یہ پھولوں کے باغیچے کیسے ہیں؟
یہ طائروں کے گیت سہانے کیسے ہیں؟
یہ سبزے کی رنگین قطاریں کیسی ہیں؟
یہ جو چار سو کثرت سے
پھیلی ہوئی ہیں
یہ سورج اس قدر کیوں ڈگمگا رہا ہے؟
سوچ رہا ہوں
یہ حقیقت ہے یا خواب ہے کوئی
یا فصلِ بہاراں ہے جو
دل کی سرزمیں پر
بچھ سی گئ ہے
یہ جو کچھ بھی ہے
میں ان سب کا دائمی احساس چاہتا ہوں
میں آنکھ جھپکانا چاہوں اگر
تو جھپکا نہیں سکتا ہوں
یہ کیسی صبح نظارے کی روح میں
آبسی ہے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی