از: سنیہ منان
ماں جی کے گھر گئے تو پتہ چلا ہمشیرہ صاحبہ بھی وہاں براجمان ہیں ، پہلے سے زیادہ چست ۔
پہلے سے زیادہ دبلی ۔ گویا تین بچوں کی ماں نہ ہوئی ، کوئی چھڑی چھانٹ ہو ہم ہمشیرہ کی اس تبدیلی پہ انگشت بدنداں تھے لیکن اپنے آپ کو گوشت کا پہاڑ سمجھنے پر تیار بھی نہ تھے. یہ تو بھلا ہو ماں جی کی کام والی کا.
کہنے لگی:” باجی تسی اے خالہ جی دی وڈی دھی ہو؟ ‘‘
حیرت سے ہم نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں کہ اب تو کام والی بھی ہمیں ہمشیرہ کی باجی بنا رہی ہے۔
گھر جاتے ہی تہیہ کرلیا کے اس کمرے کو کمر بنا کے ہی دم لیں گے ۔ ایک وقت تھا کہ میاں جی ’’گڑیا گڑیا ‘‘ کہتے تھے ۔۔۔ اورہم سمجھ رہے تھے کہ ہم ابھی تک گڑیا ہی ہیں ۔
پر بھلا ہو اس کام والی کا ، جس نے ہماری آنکھوں پر لگا پردہ ہٹا دیا۔
سو ہم بھی کمر کس کے لگ گئے دبلے ہونے کی کوشش میں ۔ کاپی پینسل سنبھالی اور اور لگے ڈائٹ پلان بنانے. کیا کھانا ہے کس ٹائم کھانا ہے یہ تو لکھ لیا، لیکن ورزش کہاں سے شروع کرنی ہے فیصلہ کرنا دشوار تھا۔
جسم تو چربی کا پہاڑ بن گیا تھا، حقیقت سے آنکھیں ملائیں تو پتہ چلا کہ نازک سی کمریا بڑے سارے کمرے میں تبدیل ہو گئی تھی. خیر پہلے دن پانچ منٹ چہل قدمی سے شروع کیا، پسینے چھوٹ گئے۔ لیکن ہم نے بھی سوچ لیا کہ اس گوشت کے پہاڑ کو پگھلاکر ہی دم لیں گے۔
سو کمرکس کے شروع ہوگئے۔
بچوں اور میاں کو بھی سمجھا دیا کہ اب ہم نہ کھانے کے برگر اور پیزے
شروع میں کافی مشکل ہوئی پھر آہستہ آہستہ عادت ہوتی گئی. خیر اللہ اللہ کرکے مہینہ گزرا اور ہم چڑھ گئے وزن کرنے والی مشین پر. فرط مسرت سے ہماری بانچھیں کھل گئیں وزن پہلے سے قدرے کم تھا۔
پھر ہمت باندھی اور اگلے مہینے زیادہ محنت کی. نتیجہ حسب توقع تھا.
تبدیلی آتی جا رہی تھی. اب تو میاں جی بھی کہنے لگ پڑے تھے کہ گڑیا تم پھر سے گڑیا لگنے لگی ہو.
کرتے کرتے تین مہینے گزر گئے اور ہم اپنے ابتدائی وزن سے کافی نیچے آگئے کمرے سے کمر تک کا سفر تو کرلیا پر اس سفر میں ہماری جو حالت ہوئی اللہ ہی جانتا ہے.
بیسیوں بار دل چاہا کہ لعنت بھیجیں اس دبلی ہونے کی کوشش پر اور کھائیں مرغن غذائیں. پھر اپنی ہمشیرہ کا نازک سراپا آنکھوں کے سامنے آ جاتا اور ہم پھر لگ جاتے کمرے کو کمر بنانے میں ۔۔۔