از: ڈاکٹرعاصم بخاری
رخصت ہواتوآنکھ ملاکرنہیں گیا ۔۔۔۔۔ وہ کیوں گیاہے یہ بھی بتاکرنہیں گیا
یہ شاید 2011 کے اوائل کی بات ہے۔ جب ایک نوجوان شاعر فلک شیر زمان کے تیسرے شعری مجموعہ کی تقریب رونمائی کی صدارت کے سلسلے میں راقم الحروف، فلک شیر زمان اور معروف فی البدیہہ شاعر جناب اقبال راہی قبلہ شہزاد احمد کے دفتر واقع مجلس ترقی ادب، جی او آر میں ان سے ملاقات کیلئے گئے۔ ان دنوں قبلہ شہزاد احمد کچھ علیل تھے مگر اپنے دفتر میں اکثر موجود رہتے تھے۔ اس ملاقات سے پہلے میرا ان سے رابطہ فون پر کم و بیش رہتا تھا ۔ صاف ظاہر ہے یہ ان کی کمال مہربانی تھی وگرنہ میں اس قابل نہ اس وقت تھا نہ اب ہوں۔ مقصود عامر مرحوم بھی اس وقت حیات تھے۔اور ان کی ادبی تنظیم "کردار” پوری طرح فعال تھی۔ "کردار ” کے پلیٹ فارم سے موبائل فون پر ایک ایس ایم ایس سروس کے ذریعے ملک کے دور دراز حصوں میں بسنے والے مختلف شعرا اپنے کلام کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ حکیم سلیم اختر ملک کی ادبی تنظیم خواجہ فرید سنگت پاکستان کے ایک مشاعرے میں مقصود عامر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فراخدلی سے مجھ ناچیز کو بھی ایس ایم ایس سروس کا حصہ بنا لیا۔ جس کے ذریعے میرا تقریبا دو ہزار کے لگ بھگ شعرا سے بذریعہ "کردار ” تنظیم رابطہ ہوا۔ جو کہ روزانہ کی بنیاد پر قائم کرنے کیلئے راقم الحروف نے اپنے ٹوٹے پھوٹے اقوال بنام "جواہر عاصمی” کا سلسلہ شروع کیا۔اس سلسلے کو بہت سے شعرا جن میں میرے استاد محترم قبلہ خالد احمد، جناب شہزاد نیر ، جناب مقصود عامر، جناب ایاز غنی، جناب عرفان صادق ،جناب جاوید قاسم، جناب اقبال راہی سمیت دیگر متعدد نام شامل تھے، بہت پذیرائی سے نوازا۔ مگر جو حوصلہ افزائی کا سلسلہ قبلہ خالد احمد اور قبلہ شہزاد احمد نے شروع کیا۔ وہ کئی حوالوں سے منفرد تھا۔ میں جب بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے اقوال یا اشعار تقریبا 1000 شعرا ئے کرام کو بھیجتا تو اکثر و بیشتر مجھے قبلہ شہزاد احمد کی کال آجاتی۔ وہ نہ صرف اس شعر یا اقوال پر اپنا علمی تبصرہ فرماتے بلکہ مجھ ناچیز کی شعر و ادب کے حوالے سے راہنمائی بھی فرماتے۔ بعض اوقات یہ گفتگو طوالت بھی اختیار کر جاتی ۔ مگر ہمیشہ اس میں سیکھنے کا بہت سارا سامان میسر آجاتا۔ صاف ظاہر ہے اتنے بڑے علمی قد کاٹھ کے مالک انسان سے گفتگو ہی قابل اعزاز تھی۔ مجھ ناچیز کو اکثر قبلہ شہزاد دفتر میں آنے کا حکم صادر فرماتے اور میں حکم بجا لانے کی پوری کوشش کرتا۔ مگر اکثر ہی مجھ سے کوتاہی سرزد ہوجاتی کیونکہ میں سلسلہ ء معاش کی وجہ سے وقت نہ نکال پاتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں ان کے پاس پہلی دفعہ حاضری دینے گیا تو ابھی وہ دفتر تشریف نہیں لائے تھے۔ کچھ وقت معروف شاعر جناب اشرف جاوید جو کہ مجلس ترقی ادب پاکستان کے دفتر میں ڈمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ خیر کچھ دیر میں قبلہ شہزاد احمد تشریف لے آئے۔ میں ان کے دفتر پہنچا تو مجھے انہوں نے کمال شفقت سے کھڑے ہو کر گلے لگایا۔ اور تعجب سے بولے۔”یار جو مجھے روزانہ اقوال یا شعر بھیجتا ہے اور میری اس سے کافی وقت تک گفتگو ہوتی ہے وہ آپ ہو” میں نے احترام سے سر جھکا دیا اور عرض کیا ۔” جی قبلہ میں ہی ہوں”۔وہ دوبارہ گویا ہوئے ” مھے یقین نہیں آرہا۔ میں نے پہلی دفعہ ایک جوان بوڑھا دیکھا ہے۔ میں نے سمجھا کہ آپ کی عمر 60 سال یا اس سے زیادہ ہو گی مگر آپ تو ابھی نوجوان ہو” ۔ انہوں نے میرے لیے چائے بنوائی اور بولے” معذرت کہ میں ہر روز آپ کے پیغام کا جواب نہیں دے پاتا کیونکہ مجھ سے ایس ایم ایس ٹائپنگ نہیں ہو پاتی۔” میں نے عرض کی ” قبلہ کیوں مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ آپ جتنی میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔” میں نے ساڑھے گیارہ بجے ان سے اجازت لی اور اپنے دفتر روانہ ہو گیا۔ خیر بات ہو رہی تھی تقریب کی صدارت کی۔ نوجوان شاعر فلک شیر زمان نے ان کو اپنی کتاب پیش کی۔ انہوں نے صدارت کی درخواست قبول کر لی۔ اپنا کچھ کلام عطا کیا۔ محترم اقبال راہی سے شعر سنانے کی فرمائش کی۔ غالبا راہی صاحب نے ایک غزل عطا کی۔ فلک شیر زمان سے بھی چند شعر سنے۔ مجھ سے بھی غزل سنی۔ میرے ایک شعر پر اصلاح دی۔ چائے کا دور چلا۔ ہم نے قبلہ شہزاد احمد سے اجازت لی اور اپنے اپنے دفاتر کو روانہ ہو گئے۔۔