غزل

غزل : ناصر ملک


ناصر ملک
گونگے بہروں کی حکومت جو بنا دی جائے
بولنے والے فقیروں کو سزا دی جائے
ایک چولھے سے جُڑے خانہ خرابوں کے بیچ
ایک دیوار وراثت کی اُٹھا دی جائے
دستخط موت کے پروانے پہ کر دیتا ہوں
آخری بار یہ تحریر پڑھا دی جائے
عین ممکن ہے کوئی کان کھلا رہ گیا ہو
پوری طاقت سے بچائو کی صدا دی جائے
ہم کتابوں کے ڈسے لوگ نہیں بچ سکتے
اب بھلے سر سے یہ تلوار ہٹا دی جائے
آخری عشق میں اندیشہءِ ہجراں نہ رہے
گر کوئی شرط روا ہے تو بتا دی جائے
جب تلک اچھا لگوں ساتھ مرا دیتے رہو
یہ ضروری تو نہیں عمر گنوا دی جائے
(ناصر ملک)

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں