افسانہ

بس بیٹی ی ی! ۔۔۔ افسانہ: محمد جاوید انور


محمد جاوید انور
نصف شب کو اسلام آباد کے سرکاری ریسٹ ہاؤس کے کمرے سے باھر  گھُپ اندھیرے میں ، کہ بجلی ابھی ابھی بند ہوئی ہے ، تیز ہوا ڈراؤنی سیٹیاں بجا رہی ہے ۔ بادل زور سے گرجتے ہیں اور موٹی موٹی بوندیں  گرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ آندھی سے محکمۂ موسمیات کے دفتر کی  چھت پر نصب  کوئی  آلہ ٹکراتا ہے تو منحوس چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔
ریسٹ ہاؤس اور سیکٹر ایچ۔ایٹ کے وسیع و عریض قبرستان کے بیچ صرف ایک سڑک بچھی ہے ۔ میرے بالکل پڑوس میں جوش ملیح آبادی اور پروین شاکر موسم کی اس نیرنگی سےبےنیاز اپنی قبروں میں میٹھی نیند سو رہے ہیں ۔
میں اپنے  پسندیدہ مصنف کے دلچسپ اور میرے پسندیدہ دیہاتی ماحول  کو مصور کرتے ناول کے صفحہ۳۷۴ پر پہنچا ہوں جہاں شدید بارشوں اور کیچڑ ، خون ،خوف اور بھوک کے مارے مسلمانوں اور سکھوں کے  لُٹے پُٹے ، زخم زخم قافلے ہیڈ سلیمانکی عبور کرنے کی خواہش میں موت  نگلتے جا رہے ہیں ۔بجلی چلی گئی تو مجھے کتاب بند کرنا پڑی ہے ۔آنکھیں موندتا ہوں تو لہو لہو ، سسکتے قافلے میری بند آنکھوں کے پیچھے چلتے ہی چلے جاتے ہیں ۔
ایک عارضی سناٹے کے بیچ اچانک میرے کانوں میں میری بوڑھی دادی کی نحیف آواز سسکاری بھرتی ہے ۔ یہ کپکپاتی ناتواں آواز میرے اصرار پر ایک بار پھر مجھے ان دنوں کی کہانی سنا رہی ہے جب انسان انسان نہیں رہا تھا ۔ جب انسان یا تو بے رحم وحشی درندہ بن گیا تھا یا ایک قابل رحم ، مجبور اور بے مایہ،  رینگتا ،سسکتا جاندار ۔ جب یہاں کی زمین انسانوں کے لئے جائے پناہ نہیں رہی تھی اور وہ قسمت کی آندھی کے تھپیڑوں کے آگے لڑھکتے پھرتے تھے۔
“پُتر میں تمہیں تقسیم کے واقعات کیا سناؤں ۔ مدتیں گزر چکیں لیکن کل کی بات لگتی ہے ۔ہزاروں قصے بنے اور گانے والے گلی گلی گاتے پھرے ۔  پُتر وہ تو عجب خوف اور دہشت کا زمانہ تھا۔ سارا گاؤں ساری ساری رات جاگتا اور پہرہ دیتا ۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ پتہ نہیں کدھر سے مُشتعل سکھوں کے جتھے نکل آئیں اور جاتے جاتے پورے گاؤں کو  تہس نہس کر جائیں ۔”
ہمارا گاؤں سرحد سے کوئی دس پندرہ کوس دور تھا اور اُس میں تقریبا سبھی جاٹ مسلمان آباد تھے ۔ چند گھر غیرمسلموں کے تھے جو بٹوال کہلاتے تھے اور بس نام کے ہندو تھے ۔کچھ گھر عیسائیوں کے تھے جن کا اپنا محلہ اور چھوٹا سا کچا پکا گرجا گھر بھی تھا جس پر لکڑی کی صلیب گڑی تھی ۔ اس محلہ کو سب “عیسائیوں کی تھٹی” نام سے پہچانتے تھے۔ایک پادری جسے عیسائی فادر کہتے تھے بائیسکل پر سوار ہفتے دو ہفتے بعد گاؤں آکر مجلس منعقد کرتا۔  وہ گول مٹول چہرے والا معصوم سا بوڑھا آدمی انجیل مقدس اور اس کے اقتباسات نیز مذہبی گیتوں کے اُردو ترجمے بانٹ جاتا جسے دو چار لڑکے ہی پڑھ سکتے جو سکول جاتے تھے ۔ زبانی یاد کرائی حمدیہ نظموں کے کورس ہر اتوار کو اس سادہ سے گرجا گھر میں گونجتے جو ہم لوگ ، مسلمانوں کے بچے ، گرجا گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر بڑے تجسس سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ۔ بس یہ سمجھ آتی کہ یسوع ایک نورانی شہزادہ تھا اور بھیڑوں کے ریوڑ کا بھی کچھ ذکر ہوتا۔ایک عیسائی لڑکا بڑے انہماک اور محنت سے ڈھولک پیٹتا اور ایک کالا بھجنگ بُوڑھا آدمی ، جس کے منہ میں دانت نہیں تھے،  پرانا سا ہارمونیم بجاتا۔
عیسائی ہمیں نظارے سے کبھی نہ روکتے بلکہ محبت سے تکتے اور اپنے گیت گاتے جاتے ۔
“بے بے جی ! کیا سکھ تقسیم کے اعلان سے پہلے بھی مسلمانوں سے لڑتے تھے ؟ “
میں نے پُوچھا۔
“نہیں پُتر۔ تمہارے گاؤں میں تو سکھ تھے ہی نہیں ۔ ہاں البتہ میرے میکے گاؤں میں آدھی آبادی سکھوں کی تھی ۔ سب ہماری برادری کے تھے۔ وہ بھی جاٹ تھے اور گوت بھی ایک ہی تھی ۔ بس وہ سکھ تھے اور ہم مسلمان۔ بیاہ شادیوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ لینا دینا باقاعدہ تھا۔ اُن کی بچیاں ہماری سہیلیاں تھیں ۔ ہم سارا سارا دن اکٹھے گُڑیاں پٹولے کھیلتے ۔ چاندنی راتوں میں چھُپن  چھپائی کھیلتے۔ ایک دوسرے کے گھر سے کھا پی بھی لیتے تھے ۔ ہمارے بھائی سکھ لڑکوں کے ساتھ رسہ کشی، کشتی اور کبڈی کھیلتے ۔ ہمارے گاؤں کی رسہ کشی کی ٹیم ضلع بھر کے مقابلے میں جیتتی تھی ۔ ہماری ٹیم کئی بار ڈپٹی صاحب بہادر سے انعام بھی پا چکی تھی اور اس کا ذکر ضلع کے سرکاری رسالہ “ بہبودی” میں چھپتا تھا۔ تمہارا بابا سب کھلاڑی لڑکوں کا گھی اور بادام ختم نہیں ہونے دیتا تھا۔غریب گھر سے ہو یا آسُودہ حال ، ٹیم کا لڑکا گاؤں بھر کی ذمہ داری اور سب کی آنکھ کا تارا ہوتا۔صبح صبح سب گھبرُو سرسوں کا تیل مل کر ورزش کرتے اور رہٹ پر نہاتے- اگر رہٹ نہ چل رہا ہوتا تو دو دو جوان باری باری بیلوں کی طرح رہٹ چلاتے اور پوری ٹیم نہاتی – رسہ کی ٹیم میں شامل ہونا گاؤں کے ہر لڑکے کا خواب ہوتا- کئی سال تک لال مسیح رسے کی ٹیم کا آخری لڑکا رہا  تھا جسے  “بینڈی” کہتے تھے۔ وہ زمین میں یوں اپنے پاؤں گھسیڑ کر پکا جم جاتا تھا کہ طاقت ور سے طاقت ور مخالف ٹیم اسے اکھاڑ نہیں سکتی تھی ۔ لال مسیح کے بھروسے ہماری ٹیم زور لگوا لگوا کر مخالف ٹیم کو تھکا دیتی اور پھر بالآخر ایک ہی ہلہ بول کر اُن کے پاؤں ایسے اکھاڑتی کہ پھر جم نہ پاتے اور وُہ سب کھنچتے چلے جاتے ۔ دو تین سال پہلے تک پرانے” بہبودی “ رسالے ہماری بیٹھک والی الماری میں پڑے رہتے تھے جن میں ہماری ٹیم کے تذکرے تھے۔ پھر شہتیر ٹوٹنے پر چھت بدلی گئی تو اس دوران کسی نے سارے  رسالے ضائع کر دئیے۔ پُتر ہمارے گاؤں کے لوگ آدھے کے قریب سکھ تھے اور آدھے مسلمان ۔ بس سب مل جُل کر رہتے تھے۔ ”
دادی کی قصہ گوئی میں وقفے تو آتے لیکن وُہ حُقہ کی گُڑ گُڑ سے آباد ہوتے۔
“بے بے جی لڑائیاں نہیں ہوتی تھیں ؟”
میں نے سوال کیا ۔
“ پُتر ایسے ہی لڑائیاں ہوتی تھیں جیسے شریکے برادری میں اب بھی ہو جاتی ہیں ۔ زیادہ لڑائیاں تو میلوں پر ہوتی تھیں ۔ ناچنے والیاں آتی تھیں نا شہر سے۔ سکھ شراب پی کر بولیاں بولتے تھے ۔ بڑھکیں مارتے تھے ۔ بکرےبلاتےتھے- بڑھ چڑھ کر پیسے لٹاتے تھے ۔ نئی فصل آنے کے قریب تو جٹ پاگل ہو ہو جاتے تھے- اُن پر ایک مدہوشی طاری رہتی ۔ ِمحسوس ہوتا کہ اُنہیں کسی بھی چیز کی پروا نہیں ۔ ایسے میں نشے میں لڑائیاں بھی ہو جاتی تھیں ۔ پُتر تھانہ کچہری انہی کڈھب کسانوں کی محنت کی کمائی کے بل پر آباد تھے۔ ان کی کمائی یا تو دھیلی دے کر حویلی لکھوانے والا بنیا کھاتا یا وکیل ، پٹواری اور تھانیدار۔مسلمانوں اور سکھوں میں اس وجہ سے کبھی لڑائی نہیں ہوتی تھی کہ وہ سکھ تھے اور ہم مسلمان ۔ بس لڑائی کی وجہ کچھ اور ہی ہوتی تھی- پانی کی باری اور کھیتوں کی حد بندی پر بھی بڑی لڑائیاں ہوتی تھیں –
سنا ہے جب پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی تو وہ مسلمانوں پر سختی کرتے تھے ۔ مسجدوں کی بےحُرمتی بھی کرتے تھے-میں نے یہاں تک سُنا ہے کہ تنگ کرنے کے لئے یہ تک کہہ دیتے” اوئے مُسلے ذرا میرا بازو تو اُٹھا ۔ مُجھے چلتے ہوئے بھاری لگ رہا ہے۔” لیکن اپنی زندگی میں تو ہم نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی پُتر ۔ سکھوں کی شاہی کا زمانہ کب کا لد چُکا تھا۔ اب تو جیسے ہم تھے ویسے ہی وُہ تھے۔ملے جُلے تھے سب۔
کوئی اچھا کوئی بُرا۔
وڈے نکے کا بڑا لحاظ تھا پُتر ۔ میرا باپ اور سردار رُوپ سنگھ بھائی بنے ہوئے تھے ۔ ہم اُن دونوں کا ایک سا ادب کرتے تھے اور دونوں سے ڈرتے تھے ۔”
سرما کی اس رات کے پہلے پہر میں اپنی دادی کے لحاف میں دبکا ہوا تھا ۔ دادی سے قصے کہانیاں سننے کا مجھے بڑا شوق تھا اور دادی روز مجھے اپنے ساتھ لحاف میں گھسا کر کہانیاں سنایا کرتیں ۔ ساتھ کی چارپائی پر لحاف اوڑھے میرا خالو بیٹھا تھا جو کل سے ہمارے گھر مہمان ٹھہرا ہُوا تھا ۔ خالو کا گاؤں ہمارے گاؤں سے کوئی دس بارہ کلو میٹر دور دریائے راوی کے کنارے بھارت کی سرحد پر واقع تھا ۔ راوی کنارہ ہونے اور بارڈر کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے خالو کے گاؤں کے ارد گرد جھاڑ جھنکاڑ ، سرکنڈوں، کیکر اور شیشم کے درختوں سے اٹا جنگل تھا جس میں جنگلی گھاس اگتی، بڑی ہوتی اور خُشک ہوتی تھی ۔ اُس جنگل میں لُومڑ ، گیدڑ، سور کے علاوہ نیل گائے اور ہرن بھی پائے جاتے تھے جن کا شکار شوق سے کیا جاتا تھا ۔ اس کے لئے رینجرز کی رضامندی حاصل کرنا بہرحال ضروری تھا جو شکار میں سے حصہ دے کر حاصل کی جا سکتی تھی ۔ سور کے شکار پر سوائے شکار کرنے کی جبلت کی تسکین کے نہ شکاریوں کو کچھ حاصل وصول تھا نہ رینجرز کو ۔ سور مارنے پر گاؤں کے کسان یقینا اس لئے خوش ہوتے تھے کہ سور ان کی فصلیں خراب کرتے تھے ۔ ہم لوگ اپنے فالتو جانور جیسے دودھ دینے سے منکر خالی خُشک بھینسیں یا کٹڑیاں کٹڑے خالو کے ہاں بھجوا دیتے جو جنگل میں مفت چَر چُگ کر پل جاتے ۔ بھینسیں پھر سے حاملہ ہو جاتیں، کٹڑے بھینسے بن جاتے تو یہ جانور ہمیں واپس کر دئیے جاتے ۔ ایسے ہی جب ساون بھادوں میں راوی چڑھتا اور خالو کا گاؤں سیلاب میں ڈوب جاتا تو خالو خالہ ، ہمارے خالہ زاد بہن بھائیوں اور اپنے سب جانوروں کو لے کر ہمارے گاؤں میں آجاتا ۔ ہمارا گاؤں بلند جگہ پر اور دریا سے بُہت دور واقع ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ رہتا۔
سیلاب کے دنوں کے علاوہ بھی خالو مہینے میں ایک دو دن ضرور ہمارے ہاں آتا اور ہماری دادی کے پاس بیٹھ کر رات کو گپ شپ کرتا ۔خالو اپنی نگرانی میں حقہ تازہ کروا کر لاتا اور دادی اور خالو باری باری حقہ گڑگڑاتے- خالو اچھی قسم کا تمباکو اپنے ساتھ لاتا اور دادی سے تمباکو کی تعریف سُن کر بہت خوش ہوتا-
‏‎” بےبے جی سُنا ہے سکھ گائے ذبح نہیں کرنے دیتے تھے؟”
میں نے سکُول کے لڑکوں سے سُنی ہوئی بات کردی-
"پُتر ہمارے گاؤں میں تو ایسا ہوا نہیں- ایک بار حویلی کے باھر درختوں کے نیچے تیرا ماموں بچھڑی ذبح کرا رہا تھا تو چاچا رُوپ سنگھ نے میرے باپ سے اتنا کہا کہ چوہدری دلاور لڑکوں سے کہو حویلی کے اندر جانور حلال کر لیا کریں – باھر کھُلے میں تھڑے پر یہ کام نہ کریں تا کہ کسی کو شرارت کا موقع نہ ملے-
بس اتنی سی بات-
شائد جہاں ہندو زیادہ ہوں وہاں لڑائی ہوتی ہو کیونکہ گائے کا زیادہ احترام ہندو کرتے ہیں۔ ہمار ے گاؤں میں یا اڑوس پڑوس کے گاؤں میں تو کبھی اس مسئلے پر لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی- اس سے زیادہ تو ہم نے کبھی سنا نہیں”-
دادی نے بات مکمل کی ۔
"بےبے جی مجھے تقسیم کے اور قصے سنائیں”
میں نے دادی کی رضائی میں گہرا گھستے ہوئے کہا –
حقے میں استعمال کئے گئے کڑوے تمباکو کی بُو جاڑے کی سردی کے ساتھ مل کر رضائی میں سرائت کر گئی تھی۔ مُجھے یہ بُو پسند تھی کیونکہ اس میں دادی کی اپنی خوشبو بھی شامل ہوتی تھی ۔ دادی نے زندگی کے اسی سال سے بھی زائد گزار لئے ہونگے لیکن پھر بھی سماعت اور بصارت قائم تھی۔ زیادہ تر دانت موجود تھے اور وہ مجھ سے چھلوا کر گنا تک چوس لیتی تھیں- چلتی پھرتی سب کچھ رغبت سے کھاتی اور ہنستی کھیلتی دادی مُجھے بُہت عزیز تھیں۔
‏‎” تمہیں قصےکہانیوں کاچسکا پڑ گیا ہے خالد”
دادی نے مجھے اپنے ساتھ چمٹاتے ہوئے کہا ۔
بات سچی تھی اس لیے میں چپکا ہو رہا اور اگلے واقعہ کے بیان کا انتظار کرنے لگا-
دادی نے حقہ کو اوپر تلے،جلدی جلدی دو تین بار گڑگڑایا اور نے خالو کی طرف گھما دی-
پھر مجھے اپنے اور بھی قریب کرتے ہوئے بولیں،
"پُتر وہ دن ہی ایسے تھے – روز نئی سے نئی باتیں سننے کو ملتیں-
نُور پور والا مہدی شاہ بڑا جوان تھا-اونچا لمبا، چوڑا چکلا ۔ اٰس کی دلیری کی دُھوم پُورے ضلع میں مچی تھی ۔ علاقے میں سب سے اچھی گھوڑی بھی مہدی شاہ ہی کی ہوتی تھی ۔ تقسیم کی افراتفری کے دوران ایک دن وُہ سفید گھوڑی پر سوار اپنے گاؤں میں داخل ہو رہا تھا کہ کسی جتھے سے نکلے چار سکھ جوانوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ یقینا ان کا مقصد یہ تھا کہ جاتے جاتے مسلمانوں کی قدیم گدی کا مشہور ، طاقت ور اور دلیر جوان ختم کر جائیں – بکرے بلاتے وہ یک دم اس پر پل پڑے-مہدی شاہ بہت دلیر ی سے لڑا اور گگ دو سکھوں کو لہو لہان کردیا- اسی دوران ایک سکھ نے موقع پا کر ایسی کرپان گھمائی کہ مہدی شاہ کا پیٹ چاک کر ڈالا- ایسا چیرا پڑا کہ شاہ کی انتڑیاں زمین پر آ ڈھیر ہوئیں- سکھ یہ کارستانی کر کے بھاگ گئے – شاہ ذرا نہ گھبرایا- آنتیں اکٹھی کر کے واپس پیٹ میں گھسیڑیں- اپنا صافہ کس کر پیٹ پر باندھا اور گھوڑی کو د لکی چال چلاتا ویرووال کے سرکاری ہسپتال پہنچ گیا -گورا ڈاکٹر ابھی علاقہ چھوڑ کر گیا نہیں تھا- اس نے انتڑیاں دھو دھا کر ،سیدھی کر کے دوبارہ اندر رکھیں اور پیٹ سی دیا- دو تین مہینے میں مہدی شاہ پھر بھلا چنگا تھا۔
دیکھ لو آج تک جیتا ہے –
سرخ سفید-
خالو نے حقہ گڑ گڑا کر نِے دادی کی طرف پھرائی اور اپنی موٹی موٹی آنکھیں میری طرف گھمائیں-
” بے بے جی کیا یہ سچ ہے ؟”
میں نے حیرت سے پوچھا-
” ہاں پتر سولہ آنے سچ ہے –
کسی بھی پرانے بند ے سے پوچھ لو-
سب کو یاد ہے۔ ”
دادی کے اتنی تسلی دلانے کے باوجود تشکیک کا کوئی ذرہ میرے دل میں چھپا رہ گیا۔
دادی جھوٹ نہیں بولتی تھیں لیکن ہو سکتا ہے بات دادی تک صحیح پہنچی ہی نہ ہو۔ دادی میں ایک معصُومیت ،ایک سادگی بہرحال تھی ۔ میں دادی کو ناراض کر کے قصہ کہانی کا پٹارہ بند نہیں کروانا چاہتا تھا اس لئے چپکا ہو رہا –
بقول دادی مجھے کہانیوں کا چسکا تھا اور دادی جیسی کہانیاں کوئی اور نہیں سنا سکتا تھا۔
خالو بھی نہیں –
حالانکہ خالو کے قصے اکثر مزاحیہ ہوتے جنہیں سن کر ہم خوب ہنستے-
یہ طے تھا کہ دادی کے قصوں کی بات ہی کچھ اور تھی اور پھر دادی ہر وقت ہمارے ساتھ تھی جبکہ خالو کبھی یہاں تو کبھی وہاں-
“خالو جی آپ سُنائیں کوئی قصہ اُس زمانے کا۔”
میری چھوٹی بہن آمنہ جسے ہنسنا بُہت پسند تھا اسی توقع سے خالو سے بولی ۔ دادی نے حقے کی نِے اپنے قبضے میں کی اور خالو کی باری تسلیم کر لی ۔
“ بیٹی اُس زمانے کی کوئی کہانی ہنسنے والی نہیں ہے جو تو مُجھ سے اُمید لگائے بیٹھی ہے ۔ ہر طرف مار دھاڑ اور افرا تفری تھی ۔ وُہ زمانہ ہی کُچھ علیحدہ تھا ۔ ہر طرف مارا ماری ۔ چھینا جھپٹی۔ ظُلم زیادتی ۔ اچھے بھلے لوگوں کی مت ماری گئی تھی۔”
دادی نے حقہ کی نِے چھوڑ دی اور خالو کو ٹوکا۔
“ لیکن شفقت علی اُس زمانے میں بھی بھلے لوگ بھلے کام ہی کر رہے تھے ۔ جب فرمان شاہ فقیر کہیں سے اپنے قافلے سے بچھڑی ایک جوان سکھنی لے آیا تھا توان بچوں کا بابا اپنا ذیلدار ہونے کافرض بھُولا نہیں تھا ۔
فرمان شاہ کو اتنی زیادہ گالیاں دیں ۔ دس چھتر مارے اور سکھنی کرماں ماری کو ساتھ لے کر گھوڑیاں دوڑاتا کئی کوس دُور سرحد کے پاس سکھوں کے قافلے سے ملوا کر آیا۔سب پاگل نہیں ہوئے تھے پُتر لیکن اکثر کی مت ماری گئی تھی۔ “
دادی نے ایک اور کہانی سُنا دی۔
“ ماسی جی آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔ پر حق تو یہی ہے کہ اچھائی بُہت کم نظر آ رہی تھی ۔ کہیں چھپ گئی تھی ۔ ہر طرف بُرائی کھلم کھُلا ناچ رہی تھی ۔لوٹ مار ، قتل و غارت ۔ بندوں کی آنکھوں میں یا تو خوف تھا یا خُون۔”
خالو نے اپنی بات رکھی ۔
دادی چپکی ہو رہیں ۔
“ خالُو جی کوئی تو قصہ سُنائیں ۔
جیسا بھی ہو”۔
آمنہ دادی کے پہلُو سے سر نکال کر پھر بولی۔
“پُتر ہمارا گاؤں تو تُم نے دیکھا ہے ۔ بالکُل سرحد پر ہے اور ساتھ دریا ہے ۔ دونوں طرف کے لوگ لُٹتے پٹتے ، مرتے مراتے دریا کے دونوں کناروں پرجمع ہوتے اور کوئی سبیل بننے پر دریا کو پار کرنے کی کوشش کرتے ۔ کُچھ پار اترتے اور کُچھ کی قسمت اِس کنارے اور اُس کنارے کے بیچ کہیں اٹک جاتی اور وُہ اپنے عذابوں سے چھوٹ جاتے ۔ جو ہماری طرف آنے کے امیدوار دُوسری طرف تھے وُہ اگر ہماری طرف پُہنچ پاتے تو اپنے ساتھ ظُلم ، جبر اور قتال کی وُہ داستانیں لے کر آتے جو پہلے سے بھڑکتی آگ کو اور تیز کرتیں ۔ ہماری سمت جو لوگ گروہوں کی شکل میں اکٹھے ہو کر دریا کے پار اترنے کے مُنتظر تھے موت ہر وقت ان کے سر پر منڈلاتی ۔ یہی صُورت حال دُوسری سمت بھی تھی۔
ایک رات کسی قافلہ سے بچھڑے کُچھ لوگ پار سے ہماری طرف اُترے تو ان کی حالت ناقابل بیان تھی ۔تین سو پچاس لوگوں کے قافلے میں سے بمشکل پندرہ لوگ زندہ بچ پائے تھے ۔ ہر ایک سراسیمہ تھا ۔ زبانیں گُنگ اور آنکھیں پتھرائی ہُوئی ۔جیسے کبھی نہ لوٹنے والوں کی آخری تصویریں ان میں جامد ہُوں ۔ ہمارے گاؤں والوں نے اُنہیں کُچھ کھانے پہننے کو دیا جو ناکافی ہی رہا ۔ ہمارے وسائل بھی محدُود تھے جو کبھی کے ختم ہو چُکے تھے ۔ اب بچے کھُچے پر گُزارا اور کہیں سے مدد مل جانے ہی کا آسرا تھا ۔ ہم دیہاتی ہر نوالہ بانٹ کھانے کی سکت اور استطاعت رکھتے ہیں سو وقت گُزر رہا تھا ۔دُکھ ہر طرف بکھرے تھے ۔بس روز نئی کہانیاں ، روز نئی مصیبتیں اور روز نئے لوگوں کی نئی دُکھی باتیں معمُول بن گئی تھیں ۔ اب کی بار جو لوگ پار اُترے تھے اور ہمارے آسرے پر آ ٹھہرے تھے وُہ سب سے زیادہ مظلُوم نظر آرہے تھے ۔ ان کی باتیں سُن کر گاؤں والے سخت دُکھی بھی تھے اور مشتعل بھی ۔خاص طور پر نوجوان بدلے کی آگ میں جھلس رہے تھے ۔ طرح طرح کے منصوبے بن رہے تھے کہ چھینی گئی جانوں اور لُٹی عصمتوں کا بدلہ کیسے لیا جائے ۔ قتل و غارت اور لوٹ مار معمُول ہو چلا تھا لیکن اب کی بار تو بدلے کے مُنہ زور جھکڑ نیست و نابود کر دینے کے چکر میں تھے ۔ منصوبہ سازی میں رات گُزری اور طے پایا کہ صُبح ہی صُبح بڑے شکار کی تلاش میں نکلا جائے ۔
صُبح کاذب ایک بڑا ٹولہ تلواروں ، ٹکووں، بلموں اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر دریا کے اس پتن کو چل نکلا جو گاؤں سے ڈیڑھ دو کوس دُور تھا اور دریا پار اترنے والے قافلوں کے لئے سب سے پسندیدہ پڑاؤ تھا ۔
جب ہم لوگ مارا ماری کرتے پتن تک پُہنچے تو یہ دیکھ کر ہمیں سخت مایُوسی ہُوئی کہ نچی کھسٹی لاشیں جا بجا بکھری پڑی تھیں اور کوئی دُوسرا مشتعل قاتل گروہ ہمارے آنے سے بھی پہلے رات ہی رات غارت گری کر کے سب ختم کر چُکا تھا ۔ ہمارا غُصہ ٹھنڈا کرنے کا سامان ہمارے آنے سے پہلے ہی کسی اور کے غضب کا ایندھن بن چُکا تھا ۔
ہمیں مایُوسی ہُوئی ۔
کسی اور شکار گاہ کے بارے میں مشورے ہونے لگے ۔ میں مارے تجسس کے دریا سے ذرا ہٹ کر جھاڑ جھنکاڑ کو اپنی چمکتی خمدار تلوار سے پیٹتا بڑی بڑی جھاڑیوں کی طرف نکل آیا ۔ ایسے ہی گھومتے ہوئے مُجھے ایک جھاڑی کے اندر سرسراہٹ سی محسُوس ہُوئی۔ میں رُک گیا۔ غور سے دیکھا تو ایک منحنی سا جسم گندے، گیلے کپڑوں سے جھانک رہا تھا ۔ وُہ ہم سے بچنے کے لئے کانٹوں کی پرواہ کئے بغیر جھاڑی کے اندر ہی اندر گھُستا چلا جا رہا تھا۔اُس کے گھٹے ہوئے سر سے گیلے بالوں کی لٹ جُڑی تھی ۔ بچا کھچا لباس اور حلیہ بتا رہا تھا کہ وُہ کس مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک مجبُور ، کمزور اور بے کس انسان دُوسرے مذہب سے متعلق انسانوں کے ڈر سے ناتواں جان بچائے جھاڑی میں دبکا بیٹھا تھا ۔ یہ دہشت زدہ شخص کوشش کر رہا تھا کہ مُمکن ہو تو زمین کے اندر گھُس کر اپنے ہم جنسوں کی نظروں سے غائب ہو جائے ۔”
“ خالُو جی آپ نے اُس بے چارے کو بچا لیا ہو گا ؟” آمنہ کی سہمی ہُوئی سی آواز نکلی ۔
“ بس بیٹی ی ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
خالو نے ہم سے نظریں چُرائیں اور حقے کے پیندے پر گاڑ دیں ۔
باھر بجلی کا تیز جھماکا ہوتا ہے اور پھر بادل کی دل دہلا دینے والی گرج کانوں کے پردے پھاڑنے کو آتی ہے۔
میں آنکھیں کھول لیتا ہُوں ۔
بارش بُہت تیز ہوگئی ہے اور میرے کمرے کی کھڑکی سے پار بھیگتی سڑک کی دُوسری طرف وسیع قبرستان میں پھیلی قبروں پر جھولتے گیلے درخت زار و قطار رو رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی