غزل

غزل : شاہد جان

شاہد جان
شاہد جان
اپنے رخ پر تری سانسوں کی ہوا رکھتے تھے
باغ سے دور    بھی ہم    بادِ صبا رکھتے تھے
ذائقہ اب وہ کہاں اب وہ کہاں بات کہ جب
اپنے ہونٹوں پہ ترے لب کا مزا رکھتے تھے
جام    کے کام    کا    آغاز    جدائی    سے ہوا
ورنہ آنکھوں ہی سے پینے کو روا رکھتے تھے
یہ زمانہ    بھی عجب ہے    کہ سمجھ جاتا ہے
ہم تو الفت کو زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اور    کاموں کی    طرح عشق بھی ناکام رہا
آج    کے کام کو ہم کل پہ اٹھا رکھتے تھے
وصل کی آس بھی بے کار مشقت ہی تو تھی
بے سبب دھیان کو رستے پہ کھڑا رکھتے تھے
آنا    چاہے تو    اسے کوئی    رکاوٹ    نہ لگے
گھر کے دروازے کو ہر وقت کھلا رکھتے تھے
غیر کے ساتھ اسے دیکھ کے کچھ کہہ نہ سکے
لاکھ منہ پھٹ تھے مگر کچھ تو حیا رکھتے تھے
اپنی تشکیک نے ہم سے یہ سکوں بھی چھینا
ورنہ    محشر میں     تو امیدِجزا    رکھتے تھے
چاہے کچھ بھی کہو بے دین نہیں تھے شاہدؔ
اک صنم ہی سہی آخر کو خدا رکھتے تھے
(شاہد جان )

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں