میں خواب رستوں پہ سوچ قدموں سے چل رہا ہوں
میں ایسا ایندھن کہ اپنی گرمی سے جل رہا ہوں
میں اک اجالا ہوں جس کو ظلمت نگل رہی ہے
میں آس سورج اداس دھرتی میں ڈھل رہا ہوں
ہو کوئی برکھا جو میری پیاسوں کو آب کر دے
میں تپتے صحراؤں کے سرابوں میں پل رہا ہوں
بسی ہے سانسوں میں اب بھی اس کے بدن کی خوشبو
اگرچہ پہلو میں اس کے بس ایک پل رہا ہوں
نقاب چہرے سے جھانکتی وہ بھنور نگاہیں
میں ان کے گھیروں میں گھر کے شاہد مچل رہا ہوں