غزل

غزل : ثمینہ سید

جیسے کبھی دریا کے کنارے نہیں ملتے
ایسے ہی تو جاں بخت ہمارے نہیں ملتے

کھل جائے نہ تم پر یہ کہیں وصل کی خواہش
ہم تم سے اسی خوف کے مارے نہیں ملتے

جب ضبط کے بند ٹوٹنے لگتے ہیں میری جاں
آنکھوں کے کناروں کو کنارے نہیں ملتے

اے دل ٫ تیری فریاد یہاں کون سنے گا
ٹوٹے ہوءے پتوں کو سہارے نہیں ملتے

ملنے کوتو ہم روز ہی مل لیتے ہیں ثمینہ
لیکن یہ مقدر کے ستارے نہیں ملتے
ثمینہ سید

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں