جیسے کبھی دریا کے کنارے نہیں ملتے
ایسے ہی تو جاں بخت ہمارے نہیں ملتے
کھل جائے نہ تم پر یہ کہیں وصل کی خواہش
ہم تم سے اسی خوف کے مارے نہیں ملتے
جب ضبط کے بند ٹوٹنے لگتے ہیں میری جاں
آنکھوں کے کناروں کو کنارے نہیں ملتے
اے دل ٫ تیری فریاد یہاں کون سنے گا
ٹوٹے ہوءے پتوں کو سہارے نہیں ملتے
ملنے کوتو ہم روز ہی مل لیتے ہیں ثمینہ
لیکن یہ مقدر کے ستارے نہیں ملتے
ثمینہ سید