غزل : ازور شیرازی

وبا کے خوف سے جاری ہے کال جینے کا
ارادہ پھر بھی رکھو اب کے سال جینے کا
میں مانتا ہوں کہ ہر سو ہے موت کا منظر
کسی طرح سے تو رستہ نکال جینے کا
یہ سوچ کر ہی غلامی کو رد کیا میں نے
کسی کے ذہن میں آئے خیال جینے کا
عذابِ جاں سے نکالے کسی طرح ہم کو
ہوا ہے جس کو بھی حاصل کمال جینے کا
میں اپنی عمرِ رواں کے طلسم سے نکلا
تو جان پایا فریبِ جمال جینے کا
فشارِ ذات سے نا آشنا نہیں پھر بھی
میں کر رہا ہوں مسلسل سوال جینے کا
واہ واہ واہ۔۔۔ کیا کہنے۔۔ لُطف آ گیا۔۔ ایک ایک مصرعہ الگ الگ داستان ہے۔
عذابِ جاں سے نکالے کسی طرح ہم کو
ہوا ہے جس کو بھی حاصل کمال جینے کا
بہت خوب عمدہ غزل
غزل بہت متاثر کن ہے۔ خیال کی تاذگی اور بیان کی خوش سلیقگی نے لطف بڑھا دیا ہے