غزل

غزل : ازور شیرازی

وبا کے خوف سے جاری ہے کال جینے کا
ارادہ پھر بھی رکھو اب کے سال جینے کا

میں مانتا ہوں کہ ہر سو ہے موت کا منظر
کسی طرح سے تو رستہ نکال جینے کا

یہ سوچ کر ہی غلامی کو رد کیا میں نے
کسی کے ذہن میں آئے خیال جینے کا

عذابِ جاں سے نکالے کسی طرح ہم کو
ہوا ہے جس کو بھی حاصل کمال جینے کا

میں اپنی عمرِ رواں کے طلسم سے نکلا
تو جان پایا فریبِ جمال جینے کا

فشارِ ذات سے نا آشنا نہیں پھر بھی
میں کر رہا ہوں مسلسل سوال جینے کا

younus khayyal

About Author

3 Comments

  1. Musa Kazim

    جنوری 31, 2021

    واہ واہ واہ۔۔۔ کیا کہنے۔۔ لُطف آ گیا۔۔ ایک ایک مصرعہ الگ الگ داستان ہے۔

  2. یوسف خالد

    جنوری 31, 2021

    عذابِ جاں سے نکالے کسی طرح ہم کو
    ہوا ہے جس کو بھی حاصل کمال جینے کا

    بہت خوب عمدہ غزل

  3. عادل

    جنوری 31, 2021

    غزل بہت متاثر کن ہے۔ خیال کی تاذگی اور بیان کی خوش سلیقگی نے لطف بڑھا دیا ہے

یوسف خالد کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں