روزمرہ مسائل سماجیات

تعلق : زیب انساء

"فلاں کی ناجائز اولاد ہے”؛؛؛ یہ وہ الفاظ ہیں جو آئے روز ہماری سماعت سے ٹکراتے ہیں. یہ وہ ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں پوری طرح اپنے قدم جمائے ہوئے ہے. کیونکہ ہمارے معاشرے میں "محبت "اور "سچی محبت "کا دعوی کرنے والے بہت سے افراد ہیں. جن کی محبت کے ثبوت کسی شاپر، کسی ڈبے کے اندر، کسی کچرا کنڈی، کسی گلی کی نکڑ، کسی سڑک کنارے، چیپا یا عیدی کے جهولے میں زندہ یا مردہ حالت میں نظر آتے ہیں.
اس سے بڑھ کر لمحہ فکریہ کیا ہوگا؟ یہ تو چند کیسیز ہوتے ہیں جو ہماری نظر سے دو چار ہوتےہیں ورنہ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں یہ گناہ کبیرہ سر زد ہو رہے ہیں.
اس ناجائز عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد اور تلخ الفاظ میں حرام زادے کہا جاتا ہے.
درحقیقت ناجائز وہ خداکی فطرت پر پیدا ہونے والے معصوم پهول نہیں بلکہ ان دو غلیظ افراد کا تعلق ہوتا ہے جن کس عشق اس جملے سے بهڑک اٹهتا ہے کہ "محبت اور جنگ میں سب جائز ہے”. اور کچھ ہی عرصہ میں ان کا یہ جسمانی عشق کسی جهاگ کی سی صورت ختم ہو جاتا ہے. شاید وہ بد تہذیب لوگ یہ نہیں جانتے کہ محبت اور جنگ میں خود کو قربان کرنا اور اپنی قربانی سے دوسروں کو سکون اور خوشی دینا تو جائز ہے مگر کسی بےگناہ کی جان لینا، پیدائش سے قبل ختم کر دینا یا پیدا کر کے لوگوں کی شعلے اگلتی سوچ کی نظر کر دینا ہرگز جائز نہیں.اور تعجب کی بات تو ہہ ہے کہ جب تک معاشرہ اس حقیقت سے لاعلم ہوتا ہے اس وقت تک وہ بچہ جائز بهی ہوتا ہے اور انسان بهی… مگر جیسے ہیہم حقیقت سے سے آگاہ ہو جاتےہیں اس وقت وہ بچہ نہ تو انسان رہتا ہے اور نہ ہی جائز… اس وقت وہ صرف حرام زادہ ہوتا ہے جسے معاشرے میں عزت سے جینے کا کوئی حق نہیں.
وہ لوگ جو خود غلیظ ہوتے ہیں وہ اس بچے کو پیدا کر کے ہا اس سے قبل ہی ختم کر کے دودھ میں سے مکهی کی طرح نکل کر صاف ہو جاتے ہیں…
جب تک محبت کے اس کهیل میں ان کا یہ ناجائز تعلق برقرار رہتا ہے اس وقت تک سب ٹهیک ہوتا ہے مگر جیسے ہی انہیں جائز تعلق قائم کرنے کا کہا جائے تو انہیں اپنی ذات برادری، رنگ و نسل، مذہب، فرقہ، خاندانی رتبہ،ماں باپ کی محبت، عزت اور احساس یک دم کسی الہام کی سی صورت یاد آ جاتا ہے جو پہلے ان کے ضمیر کے ساتھ کہیں مر چکا ہوتا ہے.
اس کار شر میں سب سے زیادہ قصور اور نقصان عورت کا ہوتا ہے. کیونکہ ہمارے ہاں ایک رواج یہ بهی ہے کہ مرد تو پهر مرد ہے… مرد کا گناہ بهی قابل معافی ہے اور عورت کی غلطی بهی واجب القتل… حیرت اس بات پر ہے کہ جو کم ظرف، کمزور اور ند تہذیب لوگ اپنی محبت کو پاکیزہ نام دینے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ناجائز تعلق قائم کر کے اولاد پیدا کرنے کی ہمت کہاں سے لاتے ہیں…
شاید وہ سمجھتے ہیں کہ رات کی تاریکی اور اندھیرے میں چهپ کر انہیں کوئی نہیں دیکھ پائے گا… مگر کوئی تو ہے جو ان کے ہر عمل سے باخبر ہے.
اور سیانے کہتے ہیں کہ جب آگ جلے تو دھواں اپر کی طرف ہی اٹهتا ہے. جیسے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے…

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

روزمرہ مسائل

چند معروضات : یوسف خالد

  • نومبر 22, 2019
ہمارے شہر،ہمارے گاؤں ہمارے سمندراور پہاڑ سب کچھ گندگی کا ڈھیر بنتے جا رہے ہیں – سیورج سسٹم ہو یا
روزمرہ مسائل

کرونا وائرس رحمت یا زحمت : اقصیٰ رانا

کرونا وائرس یعنیCOVID.19 ایک عالمی وبا بن چکاہے۔اس وقت اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا