خاکہ

استاذی ڈاکٹر شبیر احمد قادری : ڈاکٹر اصغر علی بلوچ

یادش بخیر میں نے گورنمنٹ کالج جڑانوالہ میں داخلہ لیا تو مرنجاں مرنج شخصیت کے حامل پروفیسر عبد المجید عابد ‘ معروف نقاد اور محقق ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ ‘ پروفیسر صادق حسین اور پروفیسر بابا فاضل ناصر جیسے ہر دلعزیز اساتذہ سے اردو پڑھنے کا موقع ملا ۔ دوسرے سال کے وسط میں ایک خوب صورت ‘ وجیہہ اور نوجوان پروفیسر اردو پڑھانے آئے تو ہم نے پہلے پہل یہی سمجھا کہ کسی سئینر کلاس کا کوئی طالب علم Replacement کے طور پر پڑھانے آ گیا ہے ۔ یہ استاذِ محترم ڈاکٹر شبیر احمد قادری سے پہلا تعارف تھا ۔ اس دور میں بلا مبالغہ وہ اتنے حسین و جمیل تھے کہ ہماری کلاس کے اکثر لڑکے ان کو دیکھ کر گنگنانا شروع کر دیتے تھے اور قادری صاحب بڑی اطمینان بھری مسکراہٹ کے ساتھ وہ سب کچھ ہنسی میں اڑا دیتے تھے ۔ ایک لڑکا تو باقاعدہ ڈیسک بجا کر گانے لگتا :
مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا
اگر طوفاں نہیں آتا کنارا مل گیا ہوتا
لیکن یہ سب کچھ بس چند دن ہی چلا بعد ازاں تو قادری صاحب جب پڑھانے لگے تو ہماری یہ کیفیت ہو گئی کہ
وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔
استاذِ محترم کے پاس نہ صرف گفتگو کا سلیقہ تھا بلکہ معلومات کا بھی خزانہ تھا جو وہ دورانِ لیکچر لٹاتے رہتے اور ہم لوگ دم بخود ان کی خوب صورت شخصیت اور علمیت کے سحر میں کھو کر ان سے حسبِ استطاعت کسبِ فیض کرتے رہے ۔ ہماری کلاس میں جڑانوالہ کا ایک ایسا نوجوان بھی پڑھتا تھا جو کسی مقامی تھیٹر میں کام کرتا تھا ایک دن اس نے ہمیں روزنامہ عوام کا ادبی صفحہ لا کر دکھایا جسے قادری صاحب ترتیب دیا کرتے تھے ۔ اس دن پوری کلاس ان کی علمی و ادبی خدمات کی مزید معترف ہو گئی ۔ اس کے بعد روزنامہ عوام کا ہر ادبی صفحہ کالج میں آنے لگا اور یہ حقیقت ہے کہ میری ادبی تربیت میں ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ کی بذلہ سنجی اور ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی حس لطیف نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ قادری صاحب کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے وہ پوری تخلیقی اور تہذیبی توانائی کے ساتھ ان لفظوں کا حسبِ منشا استعمال کرتے تھے ۔ جڑانوالہ کالج اور شہر کی تقریباً ہر تقریب میں ان کی نقابت خاص رنگ بھر دیتی تھی ۔ جڑانوالہ کالج کے قیامِ تدریس کے بعد میں مختلف تعلیمی و معاشی مراحل سے گزرتا ہوا کچھ عرصے کے لیے نیشنل بینک میں ملازم رہا تو ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کے ساتھ ایک آدھ بار عوام کے دفتر میں جا کر قادری صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے کمال مہربانی سے نہ صرف روزنامہ عوام کے ادبی صفحے پر میرا تعارف شامل کیا بلکہ میری منتخب غزلیں بھی شائع کیں اور یوں ایک عرصے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارا جڑ گیا ۔ 1997 میں جب بہ طور لیکچرر میں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور گورنمنٹ میونسپل ڈگری کالج فیصل آباد میں تعینات ہوا تو قادری صاحب نے نہ صرف مجھے مبارک باد کا خط لکھا بلکہ ایک خوب صورت ڈائری تحفے کے طور پر بھیجی جو اب بھی میری یادوں کا قیمتی اثاثہ ہے ۔ اس کے بعد گاہے بہ گاہے ان سے کسی نہ کسی ادبی تقریب میں ملاقات رہی لیکن ان علمی صحبت سے مکمل طور پر فیض یاب ہونے کا موقع گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں آنے کے بعد ملا ۔ دسمبر 2008 کو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں آنے سے پہلے میں وہاں کی فیکلٹی میں سے ڈاکٹر شبیر احمد قادری اور ڈاکٹر سعید احمد کی حد تک واقف تھا ان کے علاوہ ڈاکٹر ارشد اویسی اور ڈاکٹر رابعہ سرفراز کے نام سنے تھے ۔ یونیورسٹی میں پوسٹنگ بھی محض اتفاق تھا کہ وہاں ڈاکٹر انوار احمد جیسا اصولی ترقی پسند اور زیدی صاحب جیسا انصاف پسند وائس چانسلر تھا ورنہ میں میرٹ کے علاوہ یونیورسٹی کے کسی کرائی ٹیریا پر پورا نہیں اترتا تھا ۔ خیر یہ ایک الگ کہانی ہے یہ کسی دن پھر سہی ۔ یونیورسٹی میں آنے کے بعد جن محترم رفقائے کار نے مجھے دل سے خوش آمدید کہا ان میں استاذی شبیر احمد قادری کا نام سر ِ فہرست ہے ۔ یونیورسٹی کی سیاست کے مطابق اس دور میں انوار احمد کے خلاف سازشی کارروائیاں عروج پر تھی ۔ ہوس ِ اقتدار میں مبتلا مافیا مختلف اخبارات میں ان کی کردار کشی کر رہا تھا اس دوران میں مجھے استاذِ محترم قادری صاحب ‘ ڈاکٹر پروین کلو اور سعید احمد نے محفوظ و مامون رہنے کے نہایت مفید نسخے بتائے اور میں سیدھا سادہ پینڈو اس ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں ایک حد تک کامیاب رہا ۔ بعدازاں ہم نے مختلف ادوار میں مل کر اور یک سو ہو کر حسبِ استعداد کام کیا اور قادری صاحب ‘ سعید احمد ‘ ارشد اویسی ‘ پروین کلو اور طارق ہاشمی کی رفاقت نے ہمیشہ اجنبیت کے احساس کو کم کیا ۔ اشرف کمال ‘ غلام اکبر کے ساتھ محبت بھری چھیڑ چھاڑ نے بہت سے تلخ مزاج صدور شعبہ کی شدت پسندی کے اثرات کو زائل کیا ۔ ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی شریف النفسی اور انکساری نے انھیں یونیورسٹی مافیا کے جس معاشی چنگل میں پھنسایا تھا وہ ایک الگ موضوع ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس چنگل سے نکالنے میں دوستوں نے ان کا مکمل ساتھ دیا اور وہ اس سے کامیابی سے آزاد ہو گئے لیکن ان کی صحت پر ان تمام پریشانیوں کے گہرے نقوش ثبت ہوئے جو ہنوز کسی نہ کسی صورت برقرار ہیں ۔ استاذی شبیر قادری کو ڈاکٹر ارشد اویسی کمزور قادری کہ کر چھیڑا کرتے تھے حالانکہ ان کی اصول پسندی کا زیادہ تر شکار اویسی صاحب ہی ہوا کرتے تھے ۔ اسی طرح کئی مقاماتِ آہ و فغاں ایسے بھی آئے کہ قادری صاحب چٹان کی طرح ڈٹ گئے ۔ اکثر صدور شعبہ لڑاؤ اور حکومت کرو کے شاطرانہ اصول پر شعبے کے اساتذہ کے درمیان جان بوجھ کر اور کچھ عادت سے مجبور ہو کر رخنے پیدا کرتے رہتے تھے ۔ قادری صاحب نے ایسے ماحول میں ہمیشہ منصفانہ کردار ادا کیا ۔ شعبے اور یونیورسٹی کی کئی انکوائری کمیٹیوں میں مجھے قادری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے نہ خود پریشر برداشت کیا اور نہ ہی مجھے پریشر قبول کرنے دیا ۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری واقعتاً تہذیب و شائستگی کی نشانی تھے وہ اپنے شاگردوں کی کامیابیوں کو اپنی کامیابی سمجھتے اور اس پر فخر و انبساط کا اظہار کرتے ۔ جب پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور میں پروفیسر شپ کی ڈائریکٹ آسامیاں مشتہر ہوئیں تو یونیورسٹی سے ڈاکٹر شبیر احمد قادری ‘ ڈاکٹر سعید احمد اور میں نے بھی اپلائی کردیا ۔ میرا اور استاذِ محترم کا انٹرویو ایک ہی دن ہوا ۔ میں نے انٹرویو کی تیاری میں ان سے بہت راہنمائی لی ۔ انٹرویو کے بعد قادری صاحب نے مجھ سے مکمل روداد سنی پوچھے گئے سوال و جواب کی تفصیل دریافت کی اور آخر پر مجھے خوش ہو کر کامیابی کی دعا دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ چھے سات مہینے بعد رزلٹ آیا تو میری سلیکشن ہو گئی ۔ اس دوران میں قادری صاحب سخت بیمار تھے اور پہلے سول ہسپتال اور بعد میں الائیڈ ہسپتال فیصل آباد شفٹ کئے گئے ۔ ڈاکٹر ارشد اویسی کے ساتھ مل کر میں نے میڈیکل ڈاکٹ بنوایا اور قادری صاحب کی بیمار پرسی کے لیے ہسپتال گئے وہ بے ہوش تھے انھیں دیکھ کر ہم گرفتہ دل لوٹے اور ان کی صحت کے لیے بہت فکر مند ہو گئے ۔ بعدازاں جب میری تعیناتی کے آرڈرز ہوئے تو میں ان سے ملنے الائیڈ ہسپتال گیا ۔ میرے ساتھ ان کا ایم فل سکالر اور نوجوان خطاط محمد منشا بھی تھا ۔ قادری صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے ‘ نقاہت ان کے چہرے سے عیاں تھی ۔ مجھے دیکھتے ہی بستر سے اٹھے اور میرے قریب آ کر میرا ماتھا چوما اور پروفیسر شپ کی مبارک باد دی ۔ فرطِ عقیدت سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے ان کے ہاتھوں کو بوسا دیا اور دیر تک ان کے ہاتھ تھام کر ان کے بیڈ کی پائینتی بیٹھا رہا ۔ میری کامیابی کی جتنی خوشی قادری صاحب کو ہوئی شاہد ہی کسی اور کو ہوئی ہو ۔ قائداعظم بلاک میں آنے کے بعد مجھے ڈاکٹر قادری اور اویسی صاحب کے ساتھ ایک ہی کمرے میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ۔ اس دوران میں ان سے جو علمی مباحثے ہوئے ‘ جو محافل برپا ہوئیں اور دوپہر کے کھانے پر جو لطیفہ بازی ہوئی وہ ایک الگ باب کی متقاضی ہے ۔ پھر بہ طور صدرِ شعبہ تقریباً ایک سال سے کم عرصے میں جس طرح قادری صاحب نے میری راہنمائی کی اور مختلف معاملات میں تعاون کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
زبان و ادب کی ادارت میں انھوں نے جس جانفشانی سے کام کیا وہ ادارتی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن جب اپنے ادارتی اختیار میں ان پر ناروا پابندی اور ذاتی پسند نا پسند مسلط کی گئی تو وہ خود بخود اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ انھوں نے ہمیشہ اصولوں کی پاسداری کی اور جہاں بھی بے اصولی ہوئی وہ خاموش احتجاج کے ساتھ پیچھے ہٹ گئے ۔ یونیورسٹی ماحول کی قباحتوں سے یکسر دور رہے ۔ طلبہ و طالبات کی علمی راہنمائی میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے شاگردوں سے کھانے پینے جیسے معاملات کو ہمیشہ نا پسند کیا ۔
استاذِ محترم ڈاکٹر شبیر احمد قادری جتنے سنجیدہ و متین تھے اتنی ہی حس مزاح کے بھی حامل تھے ۔ ایک دفعہ تحقیق کے معیار و مسائل پر گفتگو ہوئی تو بے ساختہ فرمایا :
” مخطوطہ شناسی پڑھاتے پڑھاتے میرا منہ مخطوطے کی طرح ہو گیا ہے ۔ ” اسی طرح کے ایک موقع پر ارشاد ہوا :
” محقق کے لیے کثرتِ مواد اور حسرتِ مواد دونوں خطر ناک ہیں ۔
ڈاکٹر اشرف کمال کو دیکھتے تو آپ کی حس مزاح بھڑک اٹھتی ۔ انھیں خالص انگریزی لہجے میں کہتے :
” Mr Ashraf Camel”
اسی طرح میری توند پر خوب پھبتیاں کستے اور محفل کو زاعفران زار بنا دیتے ۔ میری گاؤں اور شہر کی جائے رہائش کے حوالے سے کہتے :
” توندلیانوالہ اور ڈھڈی والا کا کیا حال ہے ؟ ”
اکثر نہایت سنجیدگی سے مہمانوں سے مخاطب ہو کر فرماتے :
” چائے پئیں گے ؟”
پھر اور بھی زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے :
” وہ سامنے کنٹین ہے چائے پینا ہو تو شوق سے پی لیجیے ۔ ”
ڈاکٹر شبیر احمد قادری قلندرانہ مزاج کے حامل ایک بے ضرر انسان ہیں ۔ آپ فیصل آباد کی ادبی شناخت ہیں ۔ فیصل آباد کی کوئی نمائندہ علمی و ادبی تنظیم ‘ اخبار یا رسالہ ایسا نہیں جس میں آپ نے فعال کردار ادا نہ کیا ہو ۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے ابتدائی فیچر نگار ‘ ادبی پروگرام دبستان کے میزبان اور ڈرامہ نگار ہونے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے ۔
آپ کی شخصیت کو اگر چند الفاظ میں بیان کرنا چاہوں گا تو صرف اتنا کہوں گا کہ استاذِ گرامی ڈاکٹر شبیر احمد قادری حسن گزین ‘ حسن آفرین اور حسن با کنار انسان ہیں ۔ ایسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے بلکہ استاذِ محترم کے اپنے الفاظ میں جو انھوں نے کسی دوست کے خاکے میں لکھے تھے ” ایک روز چھوڑ کر پیدا ہوتے ہیں ۔ ”
22 جولائی کو ان کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہے ۔ اب وہ بقیہ زندگی کی اننگز یقناً کھل کھلا کر کھیلیں گے کیونکہ اب مصلحت نام کی کوئی دیوار ان کے لیے سد راہ نہیں ہو گی ۔
اے ہم نفسان محفلِ ما
رفتید ولے نہ از دل ما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

خاکہ

رحمان حفیظ ۔۔۔ بادشاہ گر پوٹهوہاری باوا : سعید سادھو

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے شاعر کی اہمیت تبدیل ہو گئی ہے جانے یہ پہلے سے بڑهی ہے یا
خاکہ

صلاح الدین درویش کاہتھوڑا اور درانتی : سعید سادھو

بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک خاکہ نگار امیر یا غریب ہو سکتا ہے اگر اس کے گرد مصنوعی، ملمع کاری