تنقید

ڈاکٹرستیہ پال آنند بنام مرزاغالبؔ (۱۳)

تغافل  دوست  ہوں میرا  دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

 (غالبؔ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند
حضور، اب کیا کہوں میں آپ کے اس ’’عجز‘‘ کے حق میں
کہ ’’فارس‘‘ کی زباں میں آپ نے کچھ یوں کہا بھی تھا
’’د ر آغوشِ تغافل عرض یک رنگی تواں دادن
تہی تا می کنی پہلو بما بنمو د ہ ء جا را ‘‘

مرزا غالبؔ
یقینا ً، میں نے ایسا ہی کہا تھا، پر یہ مت بھولو
کہ خود داری کی یہ تلمیح میری عجز گوئی ہے
اسے بھی یاد رکھو بر سبیلِ بحث ستیہ پال
کہ بیتِ ریختہ موزوں ہوا تھا کچھ برس پہلے

ستیہ پال آنند
مگریہ بات بھی جچتی نہیں ، مجھ کو کہ یہ نکتہ
بدیں مضمون بیدلؔ میں بھی ہے موجود ، عالی جاہ

مرزا غالبؔ
ارے بھائی، گریباں گیر کیوں ہوتے ہو تم میرے!
کہ میں تو بندہ ء بے دام ہوں بیدلؔ کا ، اور اس کے
نیاز و انقیاد و پیروی پر فخر ہے مجھ کو
کہو، اب اور کیا کہنا ہے اس تدوین میں، آنند ؟

ستیہ پال آنند
مجھے ’’پہلو تہی‘‘ ذو معنوی جچتا نہیں، قبلہ
کسی کو اپنے پہلو سے اٹھانا بد تمیزی ہے
اگر پہلو تہی کا صرف مطلب بے توجہی ہے
تو پھر اپنی طرف مبذول کرنا بھی ضروری تھا
مگرخود کو ’’تغافل دوست‘‘ کہہ کر مت سمجھیئے گا
کہ عال ظرف ہو جائے گا ناکارہ ’’دماغِ عجز‘‘
دماغِ عجز کو اوّل تو ادنیٰ ہی سمجھیے ، پھر
اسے ’’عالی‘‘ کہیں یا اور کچھ ، حفظ و مراتب دیں

مرزا غالبؔ
عزیزی، مجھ سے مت الجھوکہ تم نو مشق ہو اب بھی
سکھاو مت مجھے، کچھ خود بھی سیکھو اس حوالے سے
سمجھتے کیوں نہیں، یہ ہیں معانی ’’روزمرّہ‘‘ میں
اگر بدلیں ،بگڑ جائے گا نقشہ ایسے لفظوں کا

ستیہ پال آنند
حضور ، اب ڈانٹ سہنے کی نہیں ہے عمر یہ میری
مجھے سمجھائیں استغنا سے، دھیرج سے، متانت سے

مرزا غالبؔ
’’دماغِ عجز‘‘ کی ترکیب کیا ہے، جانتے ہو تم؟
’’دماغ ‘‘ اکثر مرّوج ہے رعونت کے معانی میں
انانیت ، تکبّر، سرد مہری اس کے پہلو ہیں
’’دماغِ عجز‘‘ جب کہتا ہوں میں تو میری قطعیت
مرّوت، بندگی، عجز و خشوع و خاکساری ہے
یہی اک وصف ہے میرا معانی در معانی میں
جسے سمجھو تو شاید تم کو بھی کچھ عقل آ جائے

ستیہ پال آنند
یہ تہدیدی مذّمت میری بہبودی کی خاطر ہے
مجھے یہ علم ہے ، یہ مہربانی، پاسداری ہے !
عسیر الفہم تھا ، قبلہ ، یہ تلمیحی مرادف، پر
یہ شعر اب واقعی پر معنی و تصریح لگتا ہے
کہاں تو ’’عجز‘‘ اور اس عجز پرـ’’نخوت‘‘ کادکھلاوا
یہی تلمیح و استنتاج ہے ، جو رو نما بھی ہے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں