تنقید

خورشیدربانی کے مقطعے


     از: یونس خیال
فنی و فکری ہر دو اعتبار سے خورشیدربانی کی شاعری نے عہد حاضر کے شعری حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔یہ شاعری محض لفظوں کی اکھاڑ بچھاڑ یا سطحی شور و غوغا نہیں بلکہ جذبوں کی لے پر گنگنائے گئے اس گیت کی مانند ہے جسے تنہائی میں آنکھیں بند کرکے سنا جاسکے،لفظ لفظ سوچا جاسکے اور پھر دل میں اتارا جاسکے۔قدیم سے وابستگی یا جدیدیت جیسی مروجہ فنی و تنقیدی اصطلاحات و مباحث سے ہٹ کراگر اس شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاعری قاری کو آہستگی سے اپنی گرفت میں لیتی ہے اور پھر تا دیر وہ اس سے محظوظ ہوتا رہتا ہے۔اور اچھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوا کرتی ہے۔
خورشیدربانی نے محبت او راحساسِ محبت کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا ہے۔اسے اس انفرادیت کا احساس بھی ہے اور وہ اس راستے میں کامیابی کے طریقوں کا شعور بھی رکھتا ہے۔
آوارگانِ شوق کا رستے میں تھا ہجوم
میں نے مگر ہجوم میں رستہ بنالیا
مجھے خورشیدربانی کی غزلوں کے مقطعوں نے خاص طور پراپنی طرف متوجہ کیا ہے۔یہ بولتے مقطعے اس کی زندگی کی پوری کہانی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔اداسی اور تنہائی کے بیچ ایک باریک لکیر پر کھڑا شاعر اپنے ذاتی دکھ شائستگی سے اپنے قاری تک پہنچاتا ہے اور قاری اس پر چونکنے کی بجائے اس کے دکھ کی لہر کو اپنے اندر اترتے محسوس کرتا ہے۔اس کی شاعری محبت کی سادہ داستان ہے۔وہ عشق کی گہری گھاٹیوں میں اتر کر گم ہوجانے کی بجائے اپنی داستان کے پس منظر کا سادگی سے اعلان کرکے مطمئن نظر آتا ہے
کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشید
دیا دریچے میں رکھا تھا،دل جلایا تھا
جسے خورشید کہتا ہے زمانہ
وہ تیرا نقشِ پا ہے میں نہیں ہوں
محبت کی مٹی سے گندھا خورشید محبوب سے اظہار محبت میں محتاط نظر آتا ہے۔اسے اپنے معاشرتی قد کاٹھ کا اندازہ بھی ہے اور آج کے دور کے محبوبانہ رویوں کا ادراک بھی۔وہ اپنی محبت کو تماشا نہیں بنانا چاہتا
دلِ خورشید خوش گمان نہ ہو
مسکرانا تو اس کی عادت ہے
کچھ زخم مرے دل میں کھلے رہ گئے خورشید
اک دستِ رفو گر کہیں امکان میں رکھے
ہمارے اس شاعر کے ہاں محبت دنیا کی سب سے بڑی نعمت بھی ہے اور ضرورت بھی لیکن محبت کے اس انداز میں سکون اور سکوت کی کیفیت موجود ہے۔وہ محبوب کے دل میں دھیرے دھیرے اترنے کا سلیقہ جانتا ہے۔اسے معلوم ہے کہ محبوب سے اس کا تعلق روایتی نہیں ہے بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ خورشیدایک ایسا عاشق ہے جو اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے بھی اپنی ذات کی اہمیت سے ہاتھ نہیں کھنچتا اور نہ ہی اپنے عشق کی شان پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیا ر نظر آتا ہے۔وہ کسی بھی حال میں ضبط کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
ایک حسرت ہوں غریبِ شہر کی خورشید اور
خواب سے تعبیر تک کے فاصلے میں قید ہوں
میں گزر جاؤں گا اپنی موج میں خورشید اور
کوئی کھڑکی سے مجھے بس دیکھتا رہ جائے گا
شاعر اپنی ذات کے اندر مصروفِ جنگ رہا اور اس کی محبت کسی اور کے دامن سے بندھ گئی۔بستی میں محبوب کا وجود ہی اس کی ساری خوشیوں کا محور تھا لیکن ہائے مجبوری کہ بستی سے محبوب کی رخصتی کا منظر بھی اسے کھلی کھڑکی سے دیکھنا پڑا۔لیکن یہ بڑا آدمی نہ محبوب سے گلہ کرتا ہے اور نہ زمانے سے شکایت،بس زیرِ لب کہہ اٹھتا ہے
بجھتا جاتا ہے میرا دل خورشید
میری بستی سے جارہی ہے وہ
بچھڑ کے تجھ سے تھا خورشید کا ٹھکانہ کیا
خوشا نصیب شبِ غم کا رازداں ہوا ہے
مرے خورشید کیوں خاموش ہے تو
یہ کیسا روگ اپنایا ہوا ہے
اورپھر وہ اپنے اندر خوابوں کی بستی بسا لیتا ہے۔ایک ایسی بستی جو اس کی اپنی ہے،جس میں رہتے ہوئے اس کا محبوب ہمیشہ اسی کا رہے گا۔نہ کوئی اسے چھین سکے گا اورنہ اسے ہجر کے صدمات جھیلنے پڑیں گے
مدتوں بعد یہ کھلا خورشید
زندگی دوستوں میں ہوتی ہے
بہت دنوں سے ہے خورشیدیہ خرابہ ء دل
مرے نصیب کی ویرانیاں بسائے ہوئے
کفَ ملال اور پھول کھلا ہے کھڑکی میں شامل غزلوں کے مقطعوں میں خورشیدربانی کی حیات اور خاص طورپر اس کی محبت کی داستاں بکھری پڑی ہے۔جسے قارئین اپنی اپنی فکری استطاعت کے مطابق ایک منظم تصویر کی صورت میں ترتیب دے کر اپنے ہاں محفوظ کر سکتے ہیں۔اورہاں ہمارے شاعر کی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔ابھی ان کا شعری سفرجاری ہے اور امید ہے کہ ان کی زندگی اور فکر کے دیگر چھپے گوشے وقت کے ساتھ ساتھ ہم پر کھلتے چلے جائیں گے۔
کہانی اپنی مکمل نہ ہوسکی خورشید
کہ لٹ گئے کہیں رستے میں دورپار کے خواب

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں