۔نانو جی کےلیے
شاعرہ : عنبرین صلاح الدین
صدیوں جیسے پل
کانوں میں سر سر کرتا ہے
وقت کا مایہ جل
گُونجے ہر آواز
ایک چنگھاڑ طواف کرے اور
کھولے سارے راز
پیچھے رہ گیا گھر
بیٹھی ہوں میں سانسیں روکے
گود میں تیرا سر!
رستے ہٹتے جائیں
پہییے چیخیں گرم سڑک پر
سگنل کھُلتے جائیں
کتنی دُور نگر
سو سو بار اِک پل میں سوچوں
کتنا اور سفر!
اندر سب گُم صُم
کھڑکی سے باہر کی دُنیا
اپنی دُھن میں گُم
لفظ نہیں بن پائیں
ہاتھوں پیروں میں بے چینی
سانسیں اُکھڑی جائیں
خاموشی تھرّائے
’’میرے سر کو اُونچا کر دو‘‘
اِ ک سرگوشی آئے
باتوں سے بہلائوں
ماتھے کو سہلائوں،لیکن
کچھ بھی کر نہیںپائوں
کیسے کہوں یہ بات
اِک شریان سے نکلا خوں اور
زیست کو ہو گئی مات
منظر یوں پھِسلے
گھڑی میں وقت نے کروٹ بدلی
لمحے بہہ نکلے
کچھ بھی ہاتھ نہ آئے
جتنے بھی میں جتن کروں اب
ہاتھوں کو پھیلائے
سنگت ختم ہوئی
ساری باتوں کی اِک بات ہے
مُہلت ختم ہوئی!