Poetry نظم

چھنگلی بولی

شاعر : ڈاکٹرستیہ پال آنند

چھنگلی بولی

نظم لکھو اک اپنے خوں سے، میرے اندر کوئی بولا
(رات کا لگ بھگ ایک بجا تھا)
میں نے اٹھ کر دیا جلایا
اور چاقو سے چھنگلی کاٹی
خون کہاں تھا سرخ، فقط مَٹ مَیلا ہی تھا
چھنگلی بولی
میرے اندر تو مَٹ مَیلا ، گدلا خوں ہے
اسی لیے تو میں ہاتھوں کی اس مخلوق میں آدھی ہی ہوں
اب لکھنے کی مشق کرو اس گدلے لہو سے
سرخ لہو تو لمبا، اونچا اٹھنے والی
نکتہ چینی کرنے والی
لکھ سکنے کی مشق میں ماہر
اس انگشت ِ شہادت میں ہے
جو تم نے چاقو کی دھار سے دور بچا کر رکھی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔1999۔۔۔۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی