شاعر: ظہور چوہان
کسی بھی وقت ملاقات ہونے والی ہے
مری حضور سے اب بات ہونے والی ہے
طواف کرنے لگا ہوں میں سبز گنبد کا
یہاں پہ ختم مری ذات ہونے والی ہے
پہنچنے والے ہیں بے آسرا حضور کے پاس
وہاں پہ ان کی مدارات ہونے والی ہے
چمکنے والی ہے اب غار ِ ثور کی قسمت
مسافروں کی یہاں رات ہونے والی ہے
کبوتروں کی طرح اُڑ رہی ہے روح مری
کچھ اور جیسے مری ذات ہونے والی ہے
اُنہیں خبر ہی نہیں ، میں غلام کس کا ہوں
جو کہہ رہے ہیں مجھے مات ہونے والی ہے
صدائیں عالمِ حیرت سے ہو رہی ہیں ظہور
حیات کشف و کرامات ہونے والی ہے
شاعر: ظہور چوہان