Poetry غزل

غزل

شاعر : سید ظہیر کاظمی

خوشبوئیں رات کی رانی کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرا کردار کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں

زندہ رہنا ہے تو حالات سے لڑنا ہو گا
موجِ ادراک رو ا نی کے سوا کچھ بھی نہیں

تو مجھے اتنی سہولت سے فراموش نہ کر
میں تری یاد دہانی کے سوا کچھ بھی نہیں

میں نے کیا جانیے کس حال میں دیکھا تھا اسے
اب مری آنکھ میں پانی کے سوا کچھ بھی نہیں

یہ جو میں دیکھتا رہتا ہوں ظہیر اپنی طرف
میرے ماضی کی نشانی کے سوا کچھ بھی نہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں