شاعر: شیخ ابراہیم ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے