Poetry نظم

معلوم ہوتا ہے یوں

فیض محمد صاحب


شاعر: فیض محمدصاحب
تمہاری یادیں
میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں
میں بہت چاہتا ہوں
مگر کم بخت وقت
خود کو دہراتا ہی نہیں
شہر کے لوگوں کی زباں سے
اپنی جدائی کا قصہ ہی نہیں اترتا
کچھ نشانیاں وصل کی
سبھالے اک جستجوِ بے سود میں
بدن جُتا رہتا ہے دن بھر
شام جب بیلیں درختوں کی غم گساری میں
ہوا کے ہاتھوں میں غم تھماتی ہیں تو
میں تنہا راہوں پہ چل رہا ہوتا ہوں
میرے سامنے رنگینوں میں لپٹے منظر
میرے احساسات پہ اذیتِ ہجر بھر دیتے ہیں
میں بہت دیر تک چلتے چلتے جب تھک جاتا ہوں
بہت رات ہو چکی ہوتی ہے
میں کسی غول سے بچھڑے ہوئے پرندے جیسا
اپنی منزل کا متلاشی
پھر سے راہوں میں کھو جاتا ہوں
شاید میں مر جاتا ہوں
کبھی کبھی جب شب
نظم لکھنے بیٹھوں تو
مجھے معلوم ہوتا ہے یوں
فیض محمد صاحب

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی