شاعر: پیر ظفرکاظمی
پیار میں گھائل ہوا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
اس خرابے میں رھا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
کیسے ہو گا حال اور ماضی کے رشتوں کا ملن
جب زمیں پر سوچتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں ہی گھلتے رہے دنیا کے رنگ و روپ میں
بھیگے موسم میں ملا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دوسروں کی آس پر دونوں نے طے کی زندگی
چاہتوں پر تو مرا تٌو بھی نہیں میں بھی نہیں
پہلا رخ تو اور سا ہے ہر کسی کا زیست میں
دوسرا رخ ماپتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
قمقمے روشن رکھے گی رات ، سارے شہر میں
رابطے میں پر ذرا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
اک عقیدہ اپنے ماتھے پر سجا لے یارِ من
آسرا جب کھو گیا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ڈاکووں کے ہی حوالے کر دے یہ کنجی ظفرؔ
کیونکہ شب بھرجاگتا تو بھی نہیں میں بھی