Poetry غزل

غزل


شاعر: پیر ظفرکاظمی 
پیار میں گھائل ہوا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
اس خرابے میں رھا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
کیسے ہو گا حال اور ماضی کے رشتوں کا ملن
جب زمیں پر سوچتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں ہی گھلتے رہے دنیا کے رنگ و روپ میں
بھیگے موسم میں ملا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دوسروں کی آس پر دونوں نے طے کی زندگی
چاہتوں پر تو مرا تٌو بھی نہیں میں بھی نہیں
پہلا رخ تو اور سا ہے ہر کسی کا زیست میں
دوسرا رخ ماپتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
قمقمے روشن رکھے گی رات ، سارے شہر میں
رابطے میں پر ذرا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
اک عقیدہ اپنے ماتھے پر سجا لے یارِ من
آسرا جب کھو گیا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ڈاکووں کے ہی حوالے کر دے یہ کنجی ظفرؔ
کیونکہ شب بھرجاگتا تو بھی نہیں میں بھی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں