Poetry غزل

غزل


شاعر: عرفان صادق
سلگتے ہیں جو وہ اس پار دیکھ لیتے ہیں
چراغ صبح کے آثار دیکھ لیتے ہیں
لپکتا جاتا ہوں ایسے نہیں تری جانب
پرندے دور سے اشجار دیکھ لیتے ہیں
یہ سارا عجز یہ ساری جھجک ہے اپنی جگہ
ہم اس کا چہرہ لگا تار دیکھ لیتے ہیں
کسی کے ہجر نے آئینہ کر دیا تھا جنہیں
وہ لوگ اب پس دیوار دیکھ لیتے ہیں
مرے خیال میں احباب ان کو کہتے ہیں
سروں پہ جو سجی دستار دیکھ لیتے ہیں
اگر ضروری ہو لب کھولنا عداوت میں
تو پہلے لوگوں کے کردار دیکھ لیتے ہیں
پھر ان سے آنکھ سمندر چھپائے پھرتا ہے
جو تیری آنکھوں میں اک بار دیکھ لیتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں