شاعر: عرفان صادق
سلگتے ہیں جو وہ اس پار دیکھ لیتے ہیں
چراغ صبح کے آثار دیکھ لیتے ہیں
لپکتا جاتا ہوں ایسے نہیں تری جانب
پرندے دور سے اشجار دیکھ لیتے ہیں
یہ سارا عجز یہ ساری جھجک ہے اپنی جگہ
ہم اس کا چہرہ لگا تار دیکھ لیتے ہیں
کسی کے ہجر نے آئینہ کر دیا تھا جنہیں
وہ لوگ اب پس دیوار دیکھ لیتے ہیں
مرے خیال میں احباب ان کو کہتے ہیں
سروں پہ جو سجی دستار دیکھ لیتے ہیں
اگر ضروری ہو لب کھولنا عداوت میں
تو پہلے لوگوں کے کردار دیکھ لیتے ہیں
پھر ان سے آنکھ سمندر چھپائے پھرتا ہے
جو تیری آنکھوں میں اک بار دیکھ لیتے ہیں