Poetry غزل

غزل

شاعر: حبیب الرحمان مشتاق

خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کریں گے
ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کریں گے

پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں
سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کریں گے

اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے
اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کریں گے

سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ
سنیں گے طعنے ہر اک کے، لیکن زباں کو آری نہیں کریں گے

ہماری خلوت نشینی ہم کو ہر انجمن سے عزیز تر ہے
کریں گے تنہائیوں سے یاری ،کسی سے یاری نہیں کریں گے

بڑی سہولت سے گن سکیں گے فلک کے تاروں کو انگلیوں پر
جو ان گنت ہیں ہمارے غم ہیں سو غم شماری نہیں کریں گے

میں جانتا ہوں میں بجھ گیا تو مرے قبیلے کے لوگ مشتاق
لہو سے روشن چراغ کرنے کی پاسداری نہیں کریں گے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں