شاعر: حبیب الرحمان مشتاق
خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کریں گے
ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کریں گے
پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں
سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کریں گے
اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے
اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کریں گے
سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ
سنیں گے طعنے ہر اک کے، لیکن زباں کو آری نہیں کریں گے
ہماری خلوت نشینی ہم کو ہر انجمن سے عزیز تر ہے
کریں گے تنہائیوں سے یاری ،کسی سے یاری نہیں کریں گے
بڑی سہولت سے گن سکیں گے فلک کے تاروں کو انگلیوں پر
جو ان گنت ہیں ہمارے غم ہیں سو غم شماری نہیں کریں گے
میں جانتا ہوں میں بجھ گیا تو مرے قبیلے کے لوگ مشتاق
لہو سے روشن چراغ کرنے کی پاسداری نہیں کریں گے