Poetry غزل

غزل

شاعر:  قمر جلالوی

مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھری رہی

میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی

مجھے علم تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی

میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی

یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی


km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں