Poetry غزل

غزل

  شاعر: محمد مختارعلی

دِلوں سے درد، دُعا سے اَثر نکلتا ہے
یہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے

پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رِواج
سو اِس عذاب سے اب کُوزہ گر نکلتا ہے

میاں یہ چادرِ شہرت تم اپنے پاس رکھو
کہ اِس سے پائوں جوڈھانپیں توسرنکلتا ہے

خیالِ گردشِ دوراں ہو کیا اُسے کہ جو شخص
گرہ میں ماں کی دُعا باندھ کر نکلتا ہے

میں سنگِ میل ہوں پتھر نہیں ہوں رَستے کا
سو کیوں زمانہ مجھے روند کر نکلتا ہے

مرے سُخن پہ تو دادِ سُخن نہیں دیتا
تِری طرف مرا قرضِ ہنر نکلتا ہے

سجی رَہے ترے ہونٹوں پہ شوخیٔ گفتار
کہ اِس سے شیخ کی باتوں کا شر نکلتا ہے

سخنورانِ قد آور میں تیرا قد مختارؔ
عجب نہیں ہے جو بالشت بھر نکلتا ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں