شاعر: جلیل عالی
کوئی بدلتا ہے کس طَور دیکھتے جائیں
کسی سے کچھ نہ کہیں اَور دیکھتے جائیں
کھِلے گا آپ نگاہوں میں عکسِ آیندہ
جو ہو رہا ہے وہ باغَور دیکھتے جائیں
نظر پہ عہد کا ہے عہد بے حجاب، تو کیوں
اک ایک ثانیہ فی ا لفَور دیکھتے جائیں
کبھی کبھی تو دل اندر اک ایسی آنکھ کھلے
غبار ہوتے ہوئے دَور دیکھتے جائیں
کہاں کہاں پہ بچایا گیا زرِ تہذیب
کنارِ وقت دھرے ثَور دیکھتے جائیں
یہ ارضِ پاک کے صد رنگ کَل کا آئینہ
درونِ سینۂ لاہَور دیکھتے جائیں
ستم جہاں کے شماریں گے کب تلک عالی
جو آپ خود پہ کیے جَور دیکھتے جائیں