نوید فدا ستی
لفظ لکھتا ہے کہ زنجیر بنا دیتا ہے
وہ تو حیرت کو بھی تحریر بنا دیتا ہے
تم اسے صرف نمی کہہ کے غلو مت برتو
اشک کو درد ہمہ گیر بنا دیتا ہے
اک تسلسل میں مناظر نظر آتے ہیں مجھے
عشق ہر خواب کو زنجیر بنا دیتا ہے
اس کے لفظوں میں وہ جادو ہے سرِبزم سخن
لب ہلاتا ہے کہ تصویر بنا دیتا ہے
درد سے عذر نہ برتو کہ یہی درد اکثر
میر کو میر تقی میؔر بنا دیتا ہے
میں اسی اسم کی برکت میں ہوں سرشار فدا
جو اندھیرے کو بھی تنویر بنا دیتا ہے