ذوالفقاراحسن
آس کے دیپ بجز تیرے بُجھا بیٹھے ہیں
در پہ تیرے جو لیے حرفِ دُعا بیٹھے ہیں
دِل تو پہلے ہی گیا تھا تیری آواز کے ساتھ
تُجھ کو دیکھا ہے تو آنکھیں بھی گنوا بیٹھے ہیں
تُجھ سے معانی کا تقاضا بھی نہیں کر سکتے
دِل کی شاخوں سے بھی الفاظ اُڑا بیٹھے ہیں
ساتھ چلنے سے گریزاں ہیں اِسی واسطے ہم
دھوکہ پہلے بھی کسی شخص سے کھا بیٹھے ہیں
اب تو چہکیں گے خموشی میں بھی لفظوں کے پرند
تیرے ہونٹوں کی منڈیروں پہ جو آ بیٹھے ہیں
تُم کو آنا جو نہیں تھا تو بتا ہی دیتے
ہم یونہی گھر کے در و بام سجا بیٹھے ہیں
ہم بھی کیا لوگ ہیں، تزئینِ چمن کی خاطر
بیل آکاس کی پیڑوں پہ چڑھا بیٹھے ہیں
ہم سُلگتے ہیں کسی اور چتا میں احسنؔ
اپنے دامن میں کوئی آگ چُھپا بیٹھے ہیں