ذوالفقاراحسن
دِل کے تاروں کو ہلا دیتی ہے آواز تِری
اِک نیا درد جگا دیتی ہے آواز تِری
ایک تالاب ہوں ایسا کہ جہاں یادیں ہیں
اُس میں کنکر سا گرِا دیتی ہے آواز تِری
تُو ہے دریا تو کہیں دُور چلا جا مجھ سے
تشنگی اور بڑھا دیتی ہے آواز تِری
میں توآواز میں ہوتاہوں معانی کی طرح
اور آواز لگا دیتی ہے ، آواز تِری
پھرلپک اوربھی بڑھ جاتی ہے اُس کے کارن
شعلہٗ جاں کو ہوا دیتی ہے آواز تِری
برسوں پہلے بھی سُنی تھی یہی آواز کہیں
فاصلے ایسے مٹا دیتی ہے آواز تِری
دستگیری مری کرتی ہے ہمیشہ احسنؔ
گرنے لگتا ہوں اُٹھادیتی ہے آواز تِری
ٹوٹنے لگتا ہے اندر سے کہیں احسنؔ بھی
ایک ہلچل سی مچا دیتی ہے آواز تِری