فرح خان
اعراب، لفظ، حرف کہانی اٹھائیے
جو چیز آپ نے ہے اٹھانی اٹھائیے
سمجھے گا کون قصہ نئے دورکا یہاں
رکیے حضور بات پرانی اٹھائیے
رختِ سفر اٹھا لیا اچھا کیا مگر
اب آخری، سفر کی نشانی اٹھائیے
ممکن لرزتا ہاتھ بدن کو ادھیڑ دے
بہتر ہے آپ شوخ جوانی اٹھائیے
رہنے دیں میرے پاس ابھی رنگِ شامِ وصل
دریائے وقت سے نہ روانی اٹھائیے
جذبہ نہیں تو شعر و سخن سب ہوئے غلط
مصرعے میں کوئی جذبِ نہانی اٹھائیے
بجنے لگا ہے کوچ کا نقارہ دم بہ دم
اب چھوڑیے قیام، روانی اٹھائیے
جس نے کیے فقیر کئ بادشہ فرح
خوش رنگ خوش مزاج وہ رانی اٹھائیے
فرح خان….
Tahir Gul
اگست 30, 2019بہت خوبصورت ۔۔ ہر شعر بہت عمدہ اور اعلٰی
بہت داد ۔۔۔ واہ واہ واہ واہ
اوصاف شیخ
اگست 30, 2019بہت اچھی غزل ہے ۔۔۔ ہر شعر قابل داد
سلامتی ہو