Poetry نظم

ظالم رات


شاعر : محمد جاوید انور
اب بول اے ظالم رات
مُجھے کیا کہتی ہے
اب بول اے ظالم رات کہاں
لے جاناہے
وہ بچپنُ تو اک خواب ہُوا
وُہ ریت اور مٹی چلے گئے
جن کی خوشبو میں گندھ کر
میں تعمیر ہُوا
اور باپ کا سایہ چلا گیا
جو سر پر تھا
تو لگتا تھا
میں بچہ ہُوں
اب بول مُجھے کیا کہتی ہے
اب بول اے ظالم رات
مُجھے کیا کہتی
اب بول اے ظالم رات
کہاں لے جانا ہے
وُہ فصلیں اور وُہ پیڑ
جو میرے ساتھی تھے
جو ساتھ مرے اگتے
اور ساتھ ہی بڑھتے تھے
وہ پیڑ جو مُجھ میں زندہ تھے
جو ساتھ بڑھے
وُہ بیل کے گھنگھرو
اور رہٹ کی آوازیں
یہ کان جو نغمے سُن سُن کر
تھے جواں ہُوئے
اب چھوٹ گئے
پھر گاؤں میرا شہر بنا
اور میں بُوڑھا
اپنے خُوابوں کے برگد کی
تعبیروں کو
یُوں ترس رہا
جیسے بے پر کی چڑیا ہو
اور سہمی سی
اپنے اُن بچوں کو ڈھونڈھے
جو بڑے ہُوئے
اورچلے گئے
اپنے آ کاش کی وُسعت میں
پرواز کے شوق میں نکل گئے
اب بول اے ظالم رات
کہاں لے جانا ہے ؟
اب بول اے ظالم رات
مجھے کیا کہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی