شاعر: خالد علیم
تیرہ و تار جنگل کے چاروں طرف خوف کی تیز رَو سنسناتی ہوائوں سے
اُمیّد کی فاختائوں کے روشن پرَوں سے بندھی مشعلیں بجھ چکی ہیں
کہ شہرِ سیہ بخت کو آنے والی سڑک سے اِدھر
کتنے پُرہول لمحات کی رایگانی بچھی ہے
کہ ستّر برس کی کہانی میں، صدمات کی بے کرانی بچھی ہے
شیر کی پشمِ مُردہ میں ملبوس اک بھیڑیا
تیرہ و تار جنگل سے شہرِسیہ بخت کو آنے والی سڑک پر
اپنی بھیڑوں کا لشکر لیے آ رہا ہے
نہیں۔۔۔ اصل میں یہ کہانی یہیں ختم ہوتی نہیں!
شیر کی پشمِ مردہ میں ملبوس اک بھیڑیے نے
سیہ رنگ موسم کی سازش سےجنگل کی کچھ کالی بھیڑوں کو اپنے قبیلے میں ٹھہرا لیا تھا
قبیلے سے باہر کی بھیڑوں کا نوچا ہوا گوشت،
خوں خوار دانتوں سے بھوسے میں تبدیل کرکے
سیہ رنگ بھیڑوں کے سرسبز چارے میں مخلوط کروا دیا تھا
کہ خود بھیڑیے نے بھی ممیاتی بھیڑوں کی ممیاہٹیں سیکھ لی تھیں
آج بھی بھیڑیا
شیر کی پشمِ مردہ میں ملبوس ممیا رہا ہے
اور سیہ رنگ بھیڑیں سبھی اس کے اطراف میں رقص فرما رہی ہیں
مگر اُس کی ساری سیہ رنگ بھیڑوں کو ڈر ہے
کہیں،شیر کی کھال پہنے ہوئے بھیڑیا سو نہ جائے
بھیڑیا ہی اگر سو گیا
اس کے دانتوں سے نوچا ہوا گوشت بھوسہ نہیں بن سکےگا
سیہ رنگ بھیڑوں کا چارہ نہیں بن سکے گا
کہ اب ان سیہ رنگ بھیڑوں کا چارہ گیاہ و خس و دُوب ہرگز نہیں
اُس کے دانتوں کا نوچا ہوا گوشت ہے
اور شہرِ سیہ بخت کی ساری بھیڑیں بھی تیار ہیں
اپنا تن، اپنا من، اُس کی خوں خوار فطرت پہ قربا ن کرنے کو تیار ہیں
شیر کی پشمِ مردہ میں ملبوس اِس بھیڑیے کی سیہ رنگ بھیڑوں کا اعلان ہے:
’’شیر کی کھال پہنے ہوئے بھیڑیے کے لیےجتنی بھیڑیں اکٹھی کرو گے؟
مخالف قبیلے کی بھیڑوں کابُھرتا بنایا ہوا گوشت
اس کے قبیلے کی ساری سیہ رنگ بھیڑوں کو ملتا رہے گا۔۔۔!!‘‘
شیر کی پشمِ مردہ میں ملبوس، شہرِ سیہ بخت کو آنے والی سڑک پر
بھیڑے کے کہیں دائیں میں، بائیں میں، آگے پیچھے
کالی بھیڑوں کا اک لائو لشکر
سیہ بخت شہرِ تماشا کی معصوم بھیڑوں کی جانب چلا آ رہا ہے
اور اطراف و اکنافِ عالم سے ، کچھ اور بھی بھیڑیے
شہر کی ساری معصوم بھیڑوں کو، دانتوں کے نشتر سے
اک بار پھر چیرنے پھاڑنے کے لیے سَر اُٹھانے لگے ہیں