Poetry نظم

ایک کوہستانی سفرکےدوران میں


شاعر: مجید امجد
تنگ پگڈنڈی سرِ کہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار منہ کھولے ہوئے
آگے، ڈھلوانوں کے پار، اک تیز موڑ اور اس جگہ
اک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئے
جھک پڑا ہے آ کے رستے پر کوئی نخلِ بلند
تھام کر جس کو گزر جاتے ہیں آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے، ڈگمگاتے رہرووں کے قافلے
ایک بوسیدہ، خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں
آہ! ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی