شاعر: معین نظامی
خواب، خیال کے جنگل میں
اک ہاتھی دانت کا تاج محل ہے
صندل والی دیوی کا
جو اندھی، گونگی، بہری بھی ہے
دل کی بے حد گہری بھی ہے
اُس کے گرد فصیلیں ہیں
کچھ شیشے کی، کچھ سونے کی
کچھ چاندی کی، کچھ ہیرے کی
اُس جنگل کے اک ننگ دھڑنگ قبیلے والے
جنسی وحشی
اُس کو ’’ماتا‘‘ کہتے ہیں
اور نیزوں، بھالوں، برچھیوں والے پہرے دار
فصیلوں پر ہر وقت چوکنّے رہتے ہیں
اُس جنگل میں جب گندم پکنے لگتی ہے
تو پورے چاند کی آدھی رات کو
اُس کے تازہ بالغ ہونے والے لڑکے
ایک خبیث پروہت کی نگرانی میں
کچھ ڈھول ڈھمکوں کے اک خاص آہنگ پہ رقصاں
اُس کی پوجا کرتے ہیں
اب آپ ہمارا مسئلہ سمجھیں
صندل والی اُس دیوی پر
ہم مرتے ہیں